24 ستمبر ، 2024
انار کو چھیلنا تو بہت مشکل لگتا ہے مگر اس کے رسیلے سرخ دانوں کو کھانے سے ساری محنت وصول ہوجاتی ہے۔
ذائقے سے ہٹ کر یہ مزیدار پھل صحت کے لیے بھی بہت زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔
اس کو کھانے سے جسم صحت مند ہوتا ہے اور مختلف امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
زمانہ قدیم سے یہ پھل انسانوں کی غذا کا حصہ ہے اور اس کے فوائد جاننے کے لیے بہت زیادہ تحقیقی کام بھی ہوا ہے۔
انار کے چند فوائد جاننا آپ کے لیے اس پھل کا مزہ دوبالا کردے گا۔
انار کے دانوں میں پولی فینول اینٹی آکسائیڈنٹس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔
پولی فینولز ایسے مرکبات ہیں جو خلیات کو نقصان پہنچانے والے غیرمستحکم مالیکیولز کا مقابلہ کرتے ہیں۔
ان مالیکیولز کو فری ریڈیکلز بھی کہا جاتا ہے۔
انار میں پولی فینولز کی ایک قسم فلیونوئڈز موجود ہوتی ہے جو صحت کے لیے بہت زیادہ مفید ہے جبکہ مختلف امراض جیسے ہائی بلڈ پریشر اور کینسر کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔
انار کے دانوں سے بھرے آدھے کپ سے جسم کو 5 گرام فائبر ملتا ہے جو دن بھر کے لیے درکار مقدار کے 18 فیصد حصے کے برابر ہوتا ہے۔
انار میں ایسے فائبر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو آسانی سے جسم میں جذب نہیں ہوتا۔
فائبر کی یہ قسم نظام ہاضمہ کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور قبض سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔
اسی طرح بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنا آسان ہوجاتا ہے جبکہ بے وقت بھوک بھی محسوس نہیں ہوتی۔
انار مٰیں موجود مرکبات جراثیموں سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
اس پھل کو کھانے سے منہ کی صحت بہتر ہوسکتی ہے کیونکہ منہ کے اندر جراثیموں کے جمع ہونے سے سانس کی بو اور دانتوں کے ٹوٹنے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
مگر انار کھانے سے آپ سانس کی بو جیسے عام مسئلے سے خود کو بچا سکتے ہیں۔
انار وٹامن سی کے حصول کا بھی اچھا ذریعہ ہے۔
انار کے دانوں سے بھرے آدھے کپ سے 9 ملی گرام وٹامن سی جسم کا حصہ بنتا ہے۔
انسانی جسم اس وٹامن کو خود نہیں بناپاتا تو اسے غذا کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے جو جسم میں ایک اینٹی آکسائیڈنٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔
وٹامن سی جسم کے متعدد افعال جیسے پروٹین میٹابولزم کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے جبکہ مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے جس سے موسمی بیماریوں کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
انار جسم میں نائٹرک آکسائیڈ کے اثر کو بڑھاتا ہے جس سے خون کی شریانیں کشادہ ہوتی ہیں۔
نائٹرک آکسائیڈ سے جسمانی سرگرمیوں کے دوران خون کا بہاؤ بھی بہتر ہوتا ہے۔
جیسا اوپر درج کیا جا چکا ہے کہ انار اینٹی آکسائیڈنٹس کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جو خلیات کو تکسیدی تناؤ سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
کچھ تحقیقی رپورٹس کے مطابق انار کھانے سے مثانے، بریسٹ، پھیپھڑوں اور آنتوں کے کینسر سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔
واضح رہے کہ اس حوالے سے جانوروں پر تحقیقی کام ہوا ہے مگر انسانوں پر زیادہ تحقیق نہیں ہوئی۔
انار میں موجود اینٹی آکسائیڈنٹس جسمانی ورم کی سطح میں کمی لانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا ہے کہ انار کے جوس کو پینے سے ورم کا باعث بننے والے عناصر کی روک تھام ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ دائمی ورم متعدد امراض بشمول امراض قلب اور ذیابیطس کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
چونکہ ورم امراض قلب کا باعث بننے والا اہم عنصر ہے، اسی وجہ سے انار کھانے سے دل کی صحت بہتر ہوسکتی ہے۔
تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ انار کے جوس پینے سے بلڈ پریشر کی سطح کم ہوتی ہے جس سے بھی امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ پولی فینولز سے بھرپور پھل جیسے انار کھانے سے امراض قلب کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
انار کا جوس پوٹاشیم کے حصول کا اچھا ذریعہ ہے اور پوٹاشیم مسلز کے صحت مند افعال کے لیے اہم جز ہے۔
پوٹاشیم اعصابی افعال کے لیے بھی اہم ہے جبکہ دل کی دھڑکن کو بھی ٹھیک رکھتا ہے۔
انار کے جوس کے ایک کپ سے جسم کو 533 ملی گرام پوٹاشیم ملتا ہے۔
گردوں میں پتھری کا سامنا دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو ہوتا ہے اور اگر اس کا علاج نہ ہو تو شدید تکلیف اور دیگر سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھتا ہے۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ انار کھانے سے گردوں میں پتھری کی روک تھام ہوتی ہے جس کی وجہ اس پھل میں موجود اینٹی آکسائیڈنٹس ہیں۔
تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ ذیابیطس ٹائپ 2 کے مریض اگر انار کے جوس کو پینا شروع کردیں تو انسولین کی مزاحمت میں کمی آسکتی ہے، جس سے ذیابیطس کی مختلف پیچیدگیوں کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
ذیابیطس سے محفوظ افراد کو اس پھل سے اپنے جسمانی وزن کو صحت مند سطح پر رکھنے میں مدد ملتی ہے، جس سے ذیابیطس سے متاثر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔
انار میں موجود مرکبات دماغ کے لیے بھی فائدہ مند ہوتے ہیں کیونکہ وہ تکسیدی تناؤ اور ورم کی روک تھام کرتے ہیں۔
کچھ تحقیقی رپورٹس کے مطابق ان مرکبات سے دماغ کو الزائمر امراض سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
اسی طرح وہ دماغی ورم کو بھی کم کرتے ہیں جس سے ذہنی امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔