02 نومبر ، 2024
پاکستان کے کامیاب ترین پیرا ایتھلیٹ حیدر علی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پیرالمپکس کو اولمپکس کے برابر ہی اہمیت دی جاتی ہے، پاکستان کے لیے پیرالمپکس میں 4 میڈلز جیتے لیکن وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ مستحق ہیں۔
جیو نیوز کو انٹرویو میں حیدر علی نےکہا کہ ارشد ندیم کو پالیسی سے بڑھ کر انعامات ملے اور مجھے پالیسی کے مطابق بھی نہیں، ارشد کو جو دیا اس کا تیسرا حصہ بھی مل جائے تو خوشی ہوگی ۔
حیدر علی نے کہا کہ ان کی کامیابیوں کے پیچھے والدین اور فیملی کی مسلسل حمایت شامل ہے، جنہوں نے ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا۔ پاکستان میں رہ کر عالمی سطح پر مقابلہ کرنا آسان نہیں، بلکہ اس کے لیے سخت محنت اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔
حیدر علی نے بتایا کہ وہ واحد پاکستانی ایتھلیٹ ہیں جنہوں نے پانچ پیرا لمپکس میں کوالیفائی کیا اور ان میں سے چار میں میڈلز جیتے۔ ان کے میڈلز میں ایک گولڈ (ٹوکیو)، ایک سلور (بیجنگ) اور دو برانز (ریو اور پیرس) شامل ہیں۔ انہوں نے پیرا لمپکس، پیرا ایشین گیمز اور ورلڈ چیمپئن شپ سمیت ہر سطح پر پاکستان کے لیے میڈلز جیتے ہیں اور اب تک 19 میڈلز حاصل کرچکے ہیں، جس میں 9 گولڈ، 4 سلور اور 6 برانز شامل ہیں۔
حیدر علی نے بتایا کہ میڈلز جیتنے کے لیے محنت کے ساتھ ساتھ وسائل کی بھی ضرورت ہوتی ہے، مگر پاکستان میں انہیں سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ واپڈا کے ملازم ہونے کے ناطے جو تنخواہ ملتی ہے، اس میں ٹریننگ کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس نہ تو مناسب اسپانسر شپ ہے اور نہ ہی حکومتی سپورٹ، جس کے باعث انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حیدر علی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ عالمی سطح پر پیرا اولمپکس کو اولمپکس کے برابر اہمیت دی جاتی ہے اور دیگر ممالک اپنے پیرا ایتھلیٹس کو اولمپکس ایتھلیٹس کے برابر انعامات دیتے ہیں، مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ ریو پیرا لمپکس میں برانز میڈل جیت کر آئے تو سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے انہیں انعام سے نوازا اور یہ واحد موقع تھا جب کسی وزیر اعظم نے انہیں بلایا مگر پیرس میں برانز میڈل جیتنے کے بعد وعدے کے باوجود ابھی تک انہیں کسی نے نہیں پوچھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب پیرس سے واپس آئے تو اس وقت وزیر اعظم یوتھ پروگرام کے چیئرمین رانا مشہود نے اپنے دفتر بلاکر وعدہ کیا تھا کہ جلد وزیر اعظم سے ملاقات کرائیں گے اور انعام دلوائیں گے لیکن اس بات کو اب دو ماہ ہوچکے لیکن کوئی جواب نہیں ملا ۔
حیدر علی نے کہا کہ انہیں دکھ ہوتا ہے کہ ان کی بے مثال کامیابیوں کے باوجود انہیں وہ عزت نہیں ملتی جس کے وہ حقدار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے پلیئرز میڈل جیت کر آتے ہیں تو اگلے دن ان کے وزیر اعظم انہیں انعامات سے نوازتے ہیں، مگر پاکستان میں ایسا نہیں۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ جب وہ بیجنگ میں ورلڈ ریکارڈ توڑ چکے تھے تو کئی ممالک نے انہیں اپنی طرف سے کھیلنے کی پیشکش کی، مگر انہوں نے ہمیشہ اپنے ملک کے لیے کھیلنے کو ترجیح دی۔
حیدر علی نے بتایا کہ انہیں ارشد ندیم کے لیےکیےگئے شاندار استقبال کو دیکھ کر خوشی ہوئی،کیوں کہ اسی گراؤنڈ پر انہوں نے بھی میڈل جیتا تھا، میرے دل میں ایک خواہش تھی کہ شاید ان کا بھی استقبال اسی طرح ہوگا۔ حیدر علی نے کہا کہ وہ ارشد ندیم کے انعامات سے خوش ہیں مگر انہیں اپنے حق کے مطابق پذیرائی نہیں ملی، انہوں نے کہا کہ ارشد ندیم کے تو گھر جاکر انعامات دیےگئے تھے، مجھے دفتر بلاکر ہی دے دیں۔