19 دسمبر ، 2024
فتنہ الخوارج ٹی ٹی پی کے کمانڈر رحیم اللہ عرف شاہد عمر کی افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ہلاکت پاکستان کے لیے ایک اہم کامیابی ہے کیونکہ وہ سرحد پار دہشتگرد حملوں میں شدت لانے میں بڑا کردار ادا کر رہا تھا۔
خوارجی شاہد عمر کی ہلاکت، جو غالباً اندرونی اختلافات یا ایک کروڑ انعامی رقم کے نتیجے میں ہوئی، فتنہ الخوارج کی اندرونی ٹھوٹ پھوٹ کو ظاہر کرتی ہے جو لالچ اور طاقت کی مسلسل کشمکش سے جنم لے رہی ہے۔
افغان طالبان کے فتنہ الخوارج کے دہشتگردوں کو پناہ دینے کے انکار بھی کھلے جھوٹ ثابت ہو چکے ہیں، اور خوارجی شاہد عمر کی افغان سرزمین پر موجودگی افغان طالبان کی دہشتگردی کی حمایت اور شراکت داری کو بے نقاب کرتی ہے۔
فتنہ الخوارج کے دہشتگردوں کو پناہ دے کر افغان طالبان خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والی قوت میں تبدیل ہو چکے ہیں، جو ناصرف پاکستان کی سلامتی بلکہ علاقائی استحکام اور عالمی امن کے لیے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔
افغان طالبان کا فتنہ الخوارج اور دیگر دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے سے انکار دہشتگرد اتحادیوں کو ترجیح دینے کے ان کے ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔
فتنہ الخوارج کے خطرے کو حل کرنے کے لیے پاکستان کی سفارتی کوششوں کو افغان طالبان کی جانب سے مسلسل مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو دہشتگردی کے خلاف کارروائی کرنے میں ان کی عدم دلچسپی اور اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
اگر افغان طالبان فتنہ الخوارج کے دہشتگردوں کو پناہ دینے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں تو پاکستان اپنی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لیے فیصلہ کن اقدامات، بشمول سرحد پار کارروائیاں کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔
اگرچہ خوارجی شاہد عمر کی موت ایک عارضی کامیابی ہے لیکن افغان طالبان کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیاں دہشتگردی کو جاری رکھنے کی ضمانت دیتی ہیں جس سے علاقائی عدم استحکام اور عالمی بے اعتمادی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
فتنہ الخوارج کے دہشتگرد شاہد عمر کی ہلاکت افغان سرزمین پر دہشتگردوں کی آزادانہ نقل و حرکت افغان صوبہ کنڑ میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے فتنہ الخوارج کے ایک اہم دہشتگرد شاہد عمرکو 3 دیگر خوارجیوں طارق، خاکسار اور عدنان سمیت ہلاک کر دیا گیا۔
صوبہ کنڑ میں ٹی ٹی پی خوارج کے ارکان کا قتل اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ فتنہ الخوارج ٹی ٹی پی کے افغانستان میں اڈے ہیں اور ان کے کمانڈر بغیر کسی پابندی کے آزادانہ گھوم رہے ہیں۔
عمر خالد خراسانی اور ملا فضل اللہ جیسے ٹی ٹی پی رہنماؤں کی ماضی میں ہلاکتیں افغان سرزمین پر ان ک کی موجودگی کا ثبوت ہیں۔
افغانستان میں ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی بار بار ہلاکتیں اس حقیقت کو بھی ثابت کرتی ہیں کہ دہشتگرد گروپ خاص طور پر ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ تنظیمیں پاکستان میں حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کر رہی ہیں۔
افغانستان میں ٹی ٹی پی دہشتگردوں کی بار بار ہلاکتوں سے افغان عبوری حکومت کے دعوے جھوٹے ثابت ہوتے ہیں جو مسلسل ان کے وجود سے انکار کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تازہ ترین رپورٹ میں واضح طور پر افغانستان میں علاقائی اور بین الاقوامی دہشتگرد گروپوں (ٹی ٹی پی، داعش اور القاعدہ) کی موجودگی اور محفوظ پناہ گاہوں اور افغان عبوری حکومت کی جانب سے ان کی حمایت کی تصدیق کی گئی ہے۔ رپورٹ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہوں کے بارے میں پاکستان کے بار بار موقف کی توثیق کرتی ہے۔
ایک پڑوسی ہونے کے ناطے، پاکستان خاص طور پر ٹی ٹی پی اور داعش کے دہشتگرد حملوں کی وجہ سے متاثر ہے جو کھلے عام افغانستان کی سرزمین سے کام کرتے ہیں۔ افغان حکومت علاقائی اور عالمی امن کو یقینی بنانے کے لیے دہشتگرد گروہوں کے خلاف حقیقی معنوں میں کارروائی کرے۔
نور ولی کی اقتدار کی ہوس ایک بار پھر عیاں ہو گئی ہے جو اختلافات کو قتل و غارت اور خونریزی کے ذریعے حل کر رہا ہے۔ دھوکہ دہی اور اندرونی لڑائی نے ٹی ٹی پی کی بکھرتی ہوئی قیادت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ فتنہ الخوارج ٹی ٹی پی میں محسود اور باجوڑ کی قیادت کے حصول کے لیے تنازع اس واقعے کی بنیادی وجہ بنی ہے۔
افغان سرزمین ان کی بدامنی کا میدان جنگ بنی ہوئی ہے، جو خطے کے امن کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ تحریک خوارج پاکستان ٹی ٹی پی جو دین کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے، اس کا اصل میں دین کے ساتھ دور دور کا بھی واسطہ نہیں، یہ مجرموں کا ایک ٹولہ ہے جو صرف اقتدار اور طاقت کے لیے سرگرم ہے۔