22 دسمبر ، 2024
آصف علی زرداری پر سو سچے جھوٹے الزامات ہیں مگر انکے حامی ہوں یا مخالف، سب ہی اس بات پر ضرور متفق ہوں گے کہ وہ دل و جان سے مصالحت اور مفاہمت کے قائل ہیں۔ انہوں نے مقتدرہ کے ساتھ کئی دہائیوں سے چلی آتی مخاصمت کو ختم کردیا اس سے پیپلز پارٹی کو اقتدار اور آسانیاں ملیں، مشکلات کا دور ختم ہوگیا مگر اس مفاہمت کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کا پنجاب اور پختونخوا میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹ روٹھ گیا۔
انہوں نے دوسری بڑی مفاہمت ن لیگ سے کی، اس سے ملک میں دو پارٹی سسٹم بن گیا، باہمی نفرتیں ختم ہوئیں دونوں جماعتوں کو اپنی ٹرمز پوری کرنیکا موقع مل گیا مگر اس کےبدلے میں پیپلز پارٹی اور صدر زرداری کو پنجاب میں بہت بڑا دھچکا لگا کیونکہ ن لیگ سے مفاہمت کے نتیجے میں پنجابی ووٹر اور انتخابی گھوڑے تحریک انصاف میں چلے گئے کیونکہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں نون سے مفاہمت کو اپنی سیاست کے خاتمے کی علامت سمجھتے تھے۔ فروری 2024ء کے الیکشن میں بلاول بھٹو نے انتخابی مہم میں نواز شریف اور ن لیگ مخالف بیانیہ اختیار کیا مگر الیکشن کے فوراً بعد آصف زرداری نے ن لیگ کی طرف دست تعاون دراز کرنے میں تاخیر نہ کی اور مقتدرہ کے زیر سایہ مفاہمتی حکومت میں صدر بن کر ن لیگ کی ہر مرحلہ پر مدد کی۔ 26ویں ترمیم ہو یا حکومت مخالف کوئی بھی معاملہ ہو وہ ڈٹ کر حکومت کے ساتھ کھڑے رہے، مگر جواب میں وفاقی حکومت کا ان سے رویہ سردمہری کا ہے جبکہ پنجاب حکومت کا انکی پارٹی سے رویہ رقیبانہ ہے۔
صدر پاکستان کو وفاق کی علامت سمجھا جاتا ہے مگر یہ عہدہ علامتی اور نمائشی ہے ۔ریاست میں اختیارات کا منبع وزیراعظم یعنی چیف ایگزیکٹو ہے۔ صدر وزیراعظم کی ایڈوائس کے آئینی طور پر پابند ہیں مگر صدر کے عہدے کو توقیر دینے کیلئے انہیں ریاستی پروٹوکول میں نمبرون کا درجہ دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم پروٹوکول میں ان کے بعد آتے ہیں، صدر کو افواجِ پاکستان کا سپریم کمانڈر برقرار رکھا گیا ہے۔ ان نمائشی اختیارات کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 46 میں واضح طور پر وزیراعظم کے صدر کے حوالے سے فرائض میں صراحتاً کہا گیا ہے کہ وزیراعظم آئینی طور پر پابند ہیں کہ وہ صدر پاکستان کو کابینہ، قانون سازی اور انتظامی احوال کے بارے میں ابلاغ کریں، وفاق کے معاملات سے متعلق صدر پاکستان کو آگاہ رکھیں۔
میری معلومات کے مطابق صدر پاکستان کے حوالے سے یہ آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی جارہی۔ آئینی ذمہ داری تو ایک طرف ایک سیاسی حلیف کے طور پر بھی ان سے مستقبل کی حکمت عملی پر مشورہ نہیں کیا جارہا۔ بڑی آسانی سے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ صدر زرداری کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔’’مفاہمت کا بادشاہ‘‘ کہلانے والے آصف علی زرداری آج کل تاش کے پتوں کے بادشاہ کی طرح بے بس ہیں۔ ایک طرف ان پر پیپلزپارٹی کے مطالبات پورے نہ ہونے کا بوجھ ہے دوسری طرف اپنے لاڈلے مگر ضدی اور غصیلے بیٹے بلاول بھٹو کا دباؤ ہے، جبکہ معاملہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت صدر کے حوالے سے آئینی ذمہ داریاں تک پوری نہیں کررہی۔ عمران خان کے حوالے سے پالیسی پر ان سے کوئی مشورہ نہیں کیا جارہا، پنجاب گئے تو وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے نہ ان کا استقبال کیا اور نہ ہی ان سے ملاقات کرنے گئیں حالانکہ پروٹوکول اور روایات کے مطابق انہیں ایسا کرنا چاہیے تھا۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ لکھے ہوئے معاہدے پر ابھی تک عمل نہیں کیا گیا، وعدے پر وعدے جاری ہیں مگر ان وعدوں پر عمل کی کوئی صورت دور دور تک نظر نہیں آرہی۔
صدر زرداری کی عملی بے بسی کے باوجودپیپلز پارٹی کا نہ تو نون لیگ سے اتحاد توڑنے کا ارادہ ہے اور نہ ہی کل کلاں کو تحریک انصاف سے اتحاد واشتراک کا کوئی امکان ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ صدر زرداری کے جذبہ مفاہمت سے کام لینے کی بجائے انہیں کونے میں لگا دیاگیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ نون یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ مستقبل میں پیپلز پارٹی کے ساتھ انہوں نے نہیںچلنا۔ مولانا فضل الرحمٰن کے چند ووٹ ہیں اور وہ نہ حکومت کے اتحادی ہیں، نہ مشکل میں ان کی مدد کرتے ہیں مگر حکومت ہر وقت ان کو خوش رکھنےکیلئےمنت سماجت میں مصروف رہتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے آگے بڑھ کر تعاون کرنے پر ن لیگی حکومت میں شکر گزاری کے جذبات تک نہیں۔ پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقوں کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کا رویہ نسبتاً بہترہے لیکن نواز شریف تو صدر آصف زرداری سے نہ ملتے ہیں نہ رابطہ رکھتے ہیں اور نہ ہی مشورے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ مریم نواز شریف کا رویہ بھی اپنے والد جیسا ہے حالانکہ چند ماہ پہلے اسلام آباد کی ایک میٹنگ میں آصف زرداری نے مریم نواز کو مشفقانہ انداز میں گلہ شکوہ بھی پہنچایا لیکن پیپلز پارٹی کو جوابی طور پر کوئی مثبت اشارے نہیں ملے۔
کہنے کو تو وزیر اعظم شہباز کی حکومت مقتدرہ کی مددسے معاشی میدان میں کامیابیاں سمیٹ رہی ہے لیکن سیاسی طور پر یہ حکومت کاغذی نائوپر سوار ہے۔نہ کوئی سیاسی بیانیہ، نہ کوئی عوامی حمایت اور نہ ہی عوام سے مشاورت و ابلاغ کا کوئی ذریعہ۔ مقتدرہ اور شہباز حکومت کا اتحاد اسی وقت تک مضبوط رہے گا جب تک تحریک انصاف کا خطرہ مقتدرہ کے گرد منڈلارہا ہے جونہی یہ خطرہ ٹلا اور مفاہمت کی کوئی صورت ہوئی مقتدرہ کیلئے کئی نئے راستے کھل جائیں گے۔ شہباز حکومت سیاست کے ذریعے وجود میں آئی ہے مگر ان کی سیاست کی طرف توجہ ہی نہیں وہ پیپلز پارٹی کے اشتراک سے مسند اقتدار پر براجمان ہیں لیکن وہ نہ صدر زرداری اور نہ ہی پیپلز پارٹی کو اہمیت دینے پر تیار ہیں اگر شہباز حکومت کا یہی رویہ رہا تو جو قومی حکومت اپنے اقتدار کے چوتھے سال میں بننی ہے وہ دوسرے تیسرے سال بھی بن سکتی ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جس حکومت کے اتحادی اور شریک کار غیر مطمئن ہوں ،ورکنگ میں مشکل محسوس کریں،انہیں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ انہیں جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے اور ان کی جو عزت و تکریم ہونی چاہیے وہ انہیں نہیں مل رہی تو پھر وہ حکومت زیادہ دیر تک چل نہیں سکتی۔ مقتدرہ اس حکومت کی سب سے بڑی سرپرست ہے وہ اپنے مقدور سے بڑھ کر حکومت کی مدد کر رہی ہے، کیا حکومت بھی مقتدرہ کو عوامی حمایت لے کر دے رہی ہے؟ پیپلز پارٹی، وفاقی حکومت کی اتحادی ہے کیا وفاقی حکومت اس کی اشک شوئی کر سکی ہے؟ موجودہ حکومت کو سب سے بڑا خطرہ انصافی بیانیے سے ہے کیا وہ آج تک اس بیانیے کا توڑ کرسکی ہے؟ اقتدار خیرات میں ملے یا کسی اور کی مخالفت کی وجہ سے مل بھی جائے تو اس کی حفاظت اپنے سرپرستوں، معاونوں اور اتحادیوں کے ساتھ رشتے مضبوط رکھ کر ہی کی جا سکتی ہے۔ صدر زرداری کے بندھے ہاتھ کھلے تو وفاقی حکومت مضبوط ہی ہو گی ان کے ہاتھ بندھے رہے تو وفاقی حکومت بھی سیاسی مفلوج ہو جائے گی!!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔