30 دسمبر ، 2024
خاموشی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد پاکستان غیر متعلق ہو چکا تھا۔ امریکی تھنک ٹینکس کا خیال تھا کہ پاکستان قابل اصلاح نہیں اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے، اس کا علاج صرف یہ ہے کہ یہ آکسیجن ٹینٹ میں رہے، نہ مرے نہ جیے، بس سانس لیتا رہے۔ معیشت کی رسی کس کر رکھی جائے تاکہ یہ خود ہی اپنی نیوکلیئر اور جہادی پالیسیوں سے توبہ تائب ہو جائے۔
جنرل باجوہ مغربی دنیا میں وقت گزار چکے تھے اس لئے انہوں نے اپنے دور میں مغربی دنیا کو ناراض کرنے والی پروچائنہ پالیسی کی رفتار کم کردی۔ جنرل باجوہ کے آنے سے پہلے پاکستان تیزی سے چینی کیمپ میں جا رہا تھا اور امریکہ کا خیال تھا کہ یہ برما کی طرح چینی کالونی یا سیٹلائٹ بننے جا رہا ہے چنانچہ باجوہ، عمران دور میں امریکی تحفظات دور کردیئے گئے، سی پیک پر توجہ اور ترجیح ختم کردی گئی اور امریکہ کے ساتھ معاملات میں بہتری آگئی لیکن امریکہ نے پاکستان کو کسی بھی طرح کی امداد دینے سے گریز کیا۔ اس دوران پاکستان خاموشی، تنہائی اور بے اعتنائی کا شکار رہا۔ اندازہ ہو رہا تھا کہ کئی دہائیوں سے دنیا کے نقشے میں سرگرم ترین ملک اچانک سرد مہر کیسے رہ سکتا ہے؟
دو عالمی افغان جنگوں میں مرکزی کردارکا مالک زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہ سکتا۔ موقع کا انتظار تھا اور ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نئے عالمی ماحول میں پھر سے سر اٹھانے لگا ہے مگر 75 سال ہم امریکی کیمپ میں کرائے کے سپاہی رہے ہیں اور اس کے فوائدسمیٹتے رہے ہیں لیکن اب ہم اپنے بازو کے پٹھے پُھلا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کا بیانیہ، ’’عمران ایک بہانہ، ایٹمی پروگرام اصل نشانہ‘‘دراصل نئی تبدیلی کا اشارہ دے رہا ہے۔ اگر صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے دبائو ڈالا تو پاکستان بھی للکار سے جواب دے گا۔
بلاول بھٹو اس وقت کے نوجوانوں میں سوجھوان شمار ہوتے ہوئے ہیں بیرونی تعلیم، خاندانی تربیت اور سیاسی روایات کے حامل ہوتے ہوئے انہوں نے وزیر خارجہ رہنے کا تجربہ بھی حاصل کرلیا ہےبطور وزیر خارجہ انہوں نے سعودیوں، امریکیوں اور بہت سےملکوں کے سفارت کاروں میں اپنے چاہنے والے بھی پیدا کرلئے ان سے صرف اسرائیلی اور بھارتی وزارت خارجہ ناراض ہوئی۔ پاکستانی مقتدرہ سے چھوٹے موٹے اختلاف کے باوجود وہ مجموعی طور پر ریاستی بیانیے کو بین الاقوامی طور پر پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اسی لئے میرا خیال ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر بلاول بھٹو کا امریکہ کو جواب ریاستی بیانیہ ہوسکتا ہے۔ یہ بدلتا بیانیہ پاکستان پر کس کس طرح سے اثر انداز ہوگا اس کیلئے پورے پاکستان کو تیار ہونا ہوگا۔
گزشتہ روز لاہور میں 8فروری کے الیکشن کے بعد پہلی بار ایک پنج ستارہ ہوٹل میں ایک بہت بڑی سیاسی تقریب ہوئی ہوٹل کا سب سے بڑا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ موقع خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کے والد خواجہ رفیق کی سالانہ برسی کا تھا۔ مگر یہ ایک سیاسی میلہ بن گیا جس میں مذاکرات کے حوالےسے نونی موقف کھل کر سامنے آیا۔ میرے بشمول مجیب الرحمٰن شامی صاحب، رانا ثنا اللہ صاحب اور جناب ایاز صادق صاحب، سب نے مصالحت، مفاہمت اور مستقبل کے امکانات پر بات کی ،سب سے دلچسپ اور دلپذیر تقریر وزیر دفاع خواجہ آصف کی تھی انہوں نے رومن مقرر سیسرو کی طرح ڈرامائی انداز میں نون لیگ کا اندرونی موقف بیان کیا وہ بار بار سامعین سے سوال کرتے رہے کہ 26 نومبر تک تو تحریک انصاف انقلاب لانا چاہتی تھی ہم سے بات تک نہیں کرنا چاہتی تھی اب یکا یک مذاکرات پر کیوں تیار ہوگئی ہے۔ ایک ماہر مقرر کی طرح وہ سامعین سے بار بار سوال پوچھتے رہے کہ پندرہ دن میں کیا ہوا ہے؟ سامعین میں سے ایک نے جواب میں کہا ڈنڈا۔
تو خواجہ صاحب نے فوراً فی البدیہہ جواب دیا کہ میں یہ نہیں سمجھتا ،یہ آپ کی رائے ہے۔ بار بارسوال دہرانے کے باوجود خواجہ آصف نے خود بھی سامعین کو یہ نہیں بتایا کہ پندرہ دن میں ہوا کیا ہے تاہم آخر میں انہوں نے انکشاف کرکے اپنی سوچ واضح کردی کہ نہ مجھ سے مذاکرات پر مشورہ کیا گیا ہے اور نہ مجھے مذاکراتی کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے پھر مسکراتے ہوئے کہا دیکھنا ان کے مذاکرات میں کوئی چال ہے، محتاط رہنا ان کی چال میں نہ آنا۔ خواجہ آصف کی تقریر سے واضح ہوگیا کہ ’’نون‘‘ بہت محتاط ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ تحریک انصاف کے مذاکرات ایک بہانہ ہیں اصل میں اب وہ سازش کرکے ہماری جگہ لینا چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی مذاکرات اس لئے کر رہی ہے کہ بیرونی دنیا کے سامنے اپنے آپ کو ایک سیاسی پارٹی ثابت کرسکے اور یہ تاثر دے کہ ہم دبائو اور تشدد کے باوجود مذاکرات پر آمادہ ہیں دوسری طرف نون میں یہ تاثر ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کو فوجی عدالت سے 9 مئی اور 26نومبر کے واقعات کی سزا ملنا ضروری ہے۔خواجہ سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ کی رائے تھی کہ اگر سنجیدہ مذاکرات کرنے ہیں تو نواز شریف، زرداری، فضل الرحمٰن اور عمران خان کے ہونے چاہئیں مقتدرہ اور عدلیہ کو بھی ان مذاکرات کا حصہ ہونا چاہئے۔
بلاول کے امریکہ مخالف بیانیے اور خواجہ سعد رفیق کے اعلامیے میں بظاہر کوئی قدر مشترکہ نہیں مگر اصل میں یہی دونوں آنے والے سال میں پاکستا ن کے دو اہم ترین مسئلے ہوں گے۔ امریکہ نے دبائو ڈالا تو کیا پاکستان ٹرمپ کے سامنے جھک کر عمران کو رعایتیں دے گا یا ڈٹ کر کھڑا ہو جائے گا؟ بلاول کا بیانیہ یہ بتا رہا ہے کہ ریاست دبائو کی صورت میں ڈٹ سکتی ہے جبکہ خواجہ رفیق کی یاد میں ہونے والی کانفرنس سے انداز ہ ہوتا ہے کہ ابھی ن اور پی ٹی آئی کی آپسی لڑائی کے زخم مندمل نہیں ہوئے، جب تک ان زخموں پر پھاہا نہیں رکھا جاتا، جب تک ایک دوسرے سے معافی نہیں مانگی جاتی، معذرت نہیں کی جاتی مذاکرات کا کوئی بڑا نتیجہ نکلنا ممکن نہیں۔
فی الحال مقتدرہ وزیر اعظم شہباز شریف کی دن رات محنت اور مشکل ترین حالات میں کام کرنے پر ان کو سراہ رہی ہےاور انہیں یہ اعتماد دیا جا رہا ہے کہ معاشی حالات بہتر ہونے کے بعد آپ سیاست میں بھی بہتری لا سکتے ہیں، مقتدرہ کی طرف سے فی الحال خان کو کوئی رعایت ملنے کا امکان نہیں، رعایت ملی بھی تو مکمل خاموشی اور موجودہ نظام کو تسلیم کرنے کی سخت شرط پر ملے گی۔بلاول کا بیانیہ مقبول تو ہوگا مگر اس میں خطرات بھی بہت ہیں سپرپاور سے لڑائی اور مخالفت بہت مہنگی پڑ سکتی ہے کمزور معیشت اور اندرونی سیاسی، مذہبی اور علاقائی لڑائیاں پاکستان کے بہت بڑے مسائل ہیں، کوئی بڑی کشمکش ہوئی تو پاکستان کی فالٹ لائنز کو سنبھالنا مشکل ہوگا۔ مناسب ہوگاکہ اندرونی مصالحت اور بیرونی ڈائیلاگ کو ذریعہ بنا کر مشکلا ت سے نکلا جائے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔