Time 01 مارچ ، 2025
دنیا

کردعسکریت پسند تنظیم پی کےکے نے ترکیہ سے جنگ بندی کا اعلان کردیا

کردعسکریت پسند تنظیم پی کےکے نے ترکیہ سے جنگ بندی کا اعلان کردیا
فوٹو: فائل

ترکیہ کی کرد عسکریت پسند تنظیم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے اپنے اسیر رہنما عبداللہ اوجلان کی اپیل پر عمل کرتے ہوئے ترکیہ سے  جنگ بندی کا اعلان کردیا۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق کالعدم تنظیم کے حامی کرد میڈیا میں جاری بیان میں کہا گیا کہ وہ اپنے  رہنما عبداللہ اوجلان کی پرامن اور جمہوری معاشرے کے قیام کی اپیل پر عمل کرتے ہوئے ترک ریاست کے ساتھ فوری جنگ بندی پر عمل کر رہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ہم جنگ بندی کی اپیل سے مکمل طور پر متفق ہیں اور اس پر عمل کریں گے، ہماری طرف سے اس وقت تک کوئی مسلح کارروائی نہیں ہوگی جب تک کہ ہم پر حملہ نہیں ہوگا۔

کرد تنظیم کے اعلان کے ساتھ ترکیہ میں  40 سالہ تنازع کے خاتمےکا آغاز ہوا ہے جس سے خطے میں سیاسی اور امن و امان کے حوالے سے دور رس نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔

خیال رہے کہ ترکیہ میں قید کرد عسکریت پسند تنظیم کردستان ورکرز پارٹی کے رہنما عبداللہ اوجلان نے 2 روز قبل اپنی تنظیم سے ہتھیار ڈالنے کی اپیل کی تھی۔

کرد حامی ترک جماعت پیپلز ایکویلیٹی اینڈ ڈیموکریسی پارٹی(ڈی ای ایم پارٹی) کے ایک وفد نے جمعرات کے روز اوجلان سے ان کی جیل میں ملاقات کی تھی اور بعد ازاں استنبول میں ان کا بیان جاری کیا گیا۔

خیال رہے کہ عبد اللہ اوجلان 1999 سے ترکی کی امرالی جیل میں قید ہیں۔

اوجلان نے اپنے بیان میں کہا ’میں ہتھیار ڈالنے کی اپیل کر رہا ہوں اور اس تاریخی ذمہ داری کو قبول کرتا ہوں۔‘عبداللہ اوجلان نےکہا کہ امن ہتھیار اٹھانے اور جنگ سے زیادہ طاقتور ہے، ہم امن و سلامتی کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔

عبد اللہ اوجلان نے مزید کہا کہ کردوں کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جارہا تھا تو کردستان ورکرزپارٹی وجود میں آئی، چیلنجز کا سامنا کرنے کے ليے کردستان ورکرز پارٹی کا قیام ناگزیر تھا۔

اپنے خط میں عبدالہ اوجلان نے کہا کہ تمام مسلح گروہوں کو ہتھیار ڈالنا پڑیں گے۔

واضح رہے کہ ترکی اور اس کے مغربی اتحادی پی کے کے کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق پی کے کے کی جانب سے 1984میں شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ابتدا میں پی کے کے کا مقصد کردوں کے لیے علیحدہ ریاست کا قیام تھا، تاہم بعد میں اس نے اپنے علیحدگی پسند نظریات کو ترک کر کے جنوب مشرقی ترکیہ میں زیادہ خودمختاری اور کردوں کے حقوق کے لیے جدوجہد پر توجہ مرکوز کی۔

مزید خبریں :