13 اپریل ، 2025
عمر بڑھنے کے ساتھ ہڈیوں کو مضبوط رکھنا بہت اہم ہوتا ہے۔
جب ہماری عمر 30 سال ہوتی ہے تو ہڈیوں کا حجم عروج تک پہنچ جاتا ہے۔
اس کے بعد اگر ہڈیوں کی صحت کا خیال نہ رکھا جائے تو عمر بڑھنے کے ساتھ ہڈیوں کا حجم گھٹنے لگتا ہے، جس سے ہڈیوں کی کمزوری یا دیگر مسائل کا خطرہ بڑھتا ہے۔
لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ہڈیوں کی صحت کا خیال رکھنا بہت آسان ہوتا ہے۔
درحقیقت چند عام چیزوں کا خیال رکھ کر عمر بڑھنے کے ساتھ ہڈیوں کو مضبوط رکھنا ممکن ہے۔
یہ منرل ہڈیوں کو صحت مند رکھنے کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔
کیلشیئم سے ہڈیاں سخت اور موٹی ہوتی ہیں اور اگر جسم میں کیلشیم کی کمی ہو تو وہ اسے ہڈیوں سے کھینچتا ہے۔
ہڈیوں میں کیلشیئم کی کمی سے وہ کمزور ہو جاتی ہیں اور فریکچر کا خطرہ بڑھتا ہے۔
کیلشیئم کا حصول غذاؤں جیسے دہی، دودھ، چنوں اور مچھلی سے ممکن ہے۔
اسی طرح ڈاکٹر کے مشورے سے کیلشیئم کے سپلیمنٹس بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
وٹامن ڈی کیلشیئم کو جذب کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
وٹامن ڈی کے بغیر ہمارا جسم غذاؤں میں موجود کیلشیئم کو جذب نہیں کرپاتا اور ہڈیاں کمزور ہوتی ہیں۔
وٹامن ڈی کی کمی ہونے پر جسم ہڈیوں کو مضبوط بنانے سے قاصر ہو جاتا ہے۔
سورج کی روشنی سے ہماری جِلد وٹامن ڈی کو حاصل کر سکتی ہے اور اس کے لیے روزانہ چند منٹ سورج کی روشنی میں گزارنا کافی ہے۔
اسی طرح غذاؤں جیسے مچھلی، انڈے، فورٹیفائیڈ دودھ اور سپلیمنٹس سے بھی وٹامن ڈی کو جسم کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
ورزش کو معمول بنانے سے ہڈیوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔
ورزش کرنے کے عادی افراد میں عمر بڑھنے کے ساتھ ہڈیوں کا حجم گھٹتا نہیں۔
اسی طرح ورزش کرنے سے مسلز بنتے ہیں جس سے جسمانی توازن بہتر ہوتا ہے اور گرنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
وزن اٹھانے والی ورزشیں، جاگنگ، پش اپس، تیز چہل قدمی، رقص اور سیڑھیاں چڑھنے جیسی ورزشیں ہڈیوں کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں۔
ان ورزشوں سے مخصوص حصوں کی ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں جیسے جاگنگ سے ٹانگوں اور پیروں کی ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔
اسی طرح وزن اٹھانے سے ہاتھوں کی ہڈیوں کو فائدہ ہوتا ہے۔
تمباکو نوشی سے متعدد امراض کا خطرہ بڑھتا ہے اور ہڈیوں کی صحت بھی اس عادت سے متاثر ہوتی ہے۔
تمباکو میں موجود نکوٹین اور دیگر کیمیکلز سے ہڈیاں بنانے والے خلیات بننے کا عمل سست ہو جاتا ہے جبکہ ہڈیوں تک خون کی روانی بھی محدود ہوتی ہے۔
اس کے نتیجے میں ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں اور فریکچر کا خطرہ بڑھتا ہے۔
سبزیوں سے جسم کو اہم وٹامنز، منرلز اور فائبر جیسے غذائی اجزا ملتے ہیں۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ہڈیوں کے حجم میں اضافے اور پھلوں و سبزیوں کے استعمال کے درمیان تعلق موجود ہے، جس کی وجہ ان غذاؤں سے جسم کو ملنے والا وٹامن ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ وٹامن سی سے بھی ہڈیوں کی صحت بہتر ہوتی ہے اور ہڈیوں کی کمزوری سے تحفظ ملتا ہے۔
آلو، شملہ مرچ، گوبھی اور وٹامن سی سے بھرپور دیگر سبزیوں یا پھلوں کا استعمال اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
جسمانی وزن کو اعتدال میں رکھنا ہڈیوں کی کثافت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
کم جسمانی وزن سے بھی ہڈیوں کے امراض سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے جبکہ اضافی جسمانی وزن بھی ہڈیوں پر دباؤ بڑھاتا ہے۔
ماہرین کی جانب سے بہت زیادہ تیزی سے جسمانی وزن میں کمی لانے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے تاکہ ہڈیاں کمزور نہ ہوسکیں۔
پروٹین بھی ہڈیوں کی صحت اور کثافت کے لیے بہت اہم غذائی جز ہے۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پروٹین سے بھرپور غذاؤں کا استعمال کرنے والے افراد کی ہڈیوں کی کثافت دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔
تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملا ہے کہ اومیگا 3 فیٹی ایسڈز بھی ہڈیوں کو مضبوط رکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
مچھلی، گریوں اور بیجوں کے ذریعے ان فیٹی ایسڈز کا حصول ممکن ہوتا ہے۔
اس سے ہٹ کر سپلیمنٹس کے ذریعے بھی اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کو جسم کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔
میگنیشم اور زنک سے بھرپور غذائیں بھی ہڈیوں کے لیے مفید ہوتی ہیں
کیلشیئم کی طرح میگنیشم اور زنک بھی ایسے منرلز ہیں جو ہڈیوں کی صحت اور کثافت میں معاونت فراہم کرتے ہیں۔
میگنیشم سے وٹامن ڈی کو متحرک ہونے میں مدد ملتی ہے اور ہمارا جسم کیلشیئم کو جذب کر پاتا ہے۔
زنک ہڈیوں میں پایا جاتا ہے اور یہ ہڈیوں کی نشوونما کو بہتر بناتا ہے جبکہ ان کے ٹوٹنے کا خطرہ کم کرتا ہے۔
گریوں، پھلیوں، دالوں، بیجوں اور سالم اناج جیسی غذاؤں سے ان غذائی اجزا کا حصول ممکن ہوتا ہے۔
میٹھے مشروبات، بسکٹ اور چینی سے بنی ہر غذا کے بہت زیادہ استعمال سے ہڈیوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
چینی کے زیادہ استعمال کے باعث پیشاب کے راستے کیلشیئم اور میگنیشم کا اخراج ہوتا ہے جس سے ہڈیاں کمزور ہوتی ہیں۔
الکحل کے استعمال سے بھی ہڈیوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
الکحل کے استعمال سے گرنے کا خطرہ بھی بڑھتا ہے جس سے ہڈیاں ٹوٹنے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔