12 اپریل ، 2013
کراچی…نیا تعلیمی سال شروع ہوئے تقریباًآدھا ماہ گزر گیا ،لیکن کراچی کے اردو بازار سمیت تمام علاقوں میں درسی کتب نایاب ہوگئی ہیں،اس صورتحال سے طلبہ اور والدین سخت پریشان ہیں۔حصول علم کی راہ میں آخر اتنی رکاوٹیں کیوں، درسی کتابوں کا بازاروں سے غائب ہوجانا کیا یہ سراسر ظلم نہیں۔پڑھائی تو ہمارا حق ہے،پھراسے مشکل تر کیوں بنایا جارہا ہے؟یہ آواز ہے ان ہزاروں معصوم بچوں کی ،جو علم کے طالب ہیں۔تب ہی تو کتابوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔بچے تو عزم اور ارادے کے پکے ہیں ہی،مگر والدین کی بھی تو یہی خواہش ہے کہ جلد از جلد یہ تلاش ختم ہو اور بچوں کو سارے مضامین کی کتابیں میسر آجائیں ۔نئے تعلیمی سال کے آغاز میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے غفلت ،دکانداروں کے لئے بھی وبال جان بن گیا ہے۔کتابوں تک رسائی کو یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ طالبعلموں کا قیمتی وقت بچایا جاسکے ۔درسی کتابوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے جہاں بچے پریشانی کا شکارہیں ،وہیں والدین بھی محکمہ تعلیم سے سوال کر رہے ہیں کہ آخر یہ مسئلہ کب حل ہوگا۔