11 مارچ ، 2012
ٹوکیو… جاپان میں شدید زلزلے اور سونامی کی تباہ کاریوں کو ایک سال بیت گیا، کئی علاقوں میں اب بھی اداسیوں کے ڈیرے ہیں، سال مکمل ہونے پر ملک بھر میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔دارالحکومت سمیت ملک کے دوسرے شہروں میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا ۔جاپان کے بادشاہ اکی ہیٹو، ان کی اہلیہ ،وزیراعظم اورحکومتی اعلیٰ عہدیداران نے بھی تقریب میں شرکت کی، یادگاروں پر پھول چڑھائے گئے، اورایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔دوسری طرف جوہری توانائی کے استعمال اور تابکاری کے اخراج پر ناراض درجنوں افراد نے احتجاجی مظاہرے کیے اورجوہری پلانٹ کے خلاف نعرے لگائے۔ ایک سال پہلے11 مارچ کو 9.0 شدت کے زلزلے نے جاپان کے شمالی علاقوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔زلزلے کے نتیجے میں سمندر سے 75 فٹ تک بلند لہریں اٹھیں۔ کئی ساحلی علاقے تباہ ہوئے۔ انتظامی ڈھانچے کی شکل بگڑ گئی۔ بیس ہزار سے زیادہ انسان ہلاک ہوگئے یا ابھی تک لاپتہ ہیں۔ نصف ملین انسان بے گھر ہو گئے، جن میں سے 80 ہزار سے زیادہ اب بھی ہنگامی رہائش گاہوں میں رہ رہے ہیں۔سونامی نے ری ایکٹر کو ٹھنڈا رکھنے کے نظام کو شدید متاثر کیا، درجہ حرارت بڑھنے سے فیول راڈز پگھلنا شروع ہو گئے۔ ری ایکٹر میں دھماکوں کے ساتھ ہی تابکاری کا اخراج شروع ہو گیا۔ آئل فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھی۔ جوہری حادثے کے فوری بعد فوکوشیما کے اطراف بیس کلومیٹر کے علاقے میں رہنے والے شہریوں کو وہاں سے بیدخل ہونا پڑا۔اور اب تیس کلومیٹر کے علاقے میں رہائش نہیں رکھی جاسکتی۔ یہ چرنوبل کے بعد سے اب تک ہولناک ترین ایٹمی حادثے کی صورت میں برآمد ہوا۔ ایک سال بعد بھی جاپانی شہری تابکاری کے خوف کا شکار ہیں اور سبزیوں میں تابکاری اثرات کی ممکنہ موجودگی سے پریشان بھی لیکن زندگی بحالی کی جانب رواں دواں ہے۔