19 جون ، 2013
نیو یا رک…اقوامِ متحدہ کے مطابق 2012ء میں 7.6ملین افراد پناہ گزین بنے ہیں، دنیا میں اس وقت پناہ گزینوں کی کل تعداد تقریباً 45ملین ہے۔ 1994ء کے بعد یہ اب تک پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین یو این ایچ سی آر کے مطابق اس بڑھتی ہوئی تعداد میں شام کا تنازع ایک اہم عنصر ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں 55 فیصد پناہ گزینوں کا تعلق پانچ ممالک، افغانستان، صومالیہ، عراق، سوڈان اور شام سے ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ دنیا کے 81فیصد پناہ گزینوں کی میزبانی ترقی پزیر ممالک کر رہے ہیں۔ ایک دہائی قبل کے مقابلے میں یہ شرح 11فیصد زیادہ ہے۔یو این ایچ سی آر کے سربراہ اینتونیو گترز کا کہنا تھا کہ ’یہ تعداد انتہائی پریشان کن ہے۔ اس سے نہ صرف بڑے پیمانے پر انفرادی تکالیف کی عکاسی ہوتی ہے بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ عالمی برادری کشیدگی کو روکنے اور مسائل کے بر وقت حل میں کس قدر ناکام ہے، ان کا کہنا تھا کہ 76 لاکھ پناہ گزینوں کا مطلب ہے کہ ہر 4.1سیکنڈ کے بعد ایک نئے شخص کو اپنا گھر چھوڑنا پڑ رہا ہے۔آپ کے ہر پلک جھپکنے پر ایک اور شخص پناہ گزین بن رہا ہے۔یہ معلومات ادارے کی اپنی تحقیق اور دیگر حکومتی ذرائع اور غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے اکھٹی کی گئی ہیں۔پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد افغانستان سے آئی ہے اور وہاں کے 95فیصد پناہ گزین پاکستان اور ایران میں ہیں۔ گذشتہ 32سال سے دنیا کے سب سے زیادہ پناہ گزین افغانستان سے آئے ہیں۔2012ء کے اعداد و شمار کے مطابق تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر صومالی باشندے، تیسرے پر عراقی اور چوتھے پر شامی افراد ہیں۔واضح رہے رپورٹ میں رواں سال شام سے نقل مکانی کرنے والے مزید 10لاکھ افراد کا شمار نہیں کیا گیا ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ رجحان برقرار رہا تو اس سال کے آخر تک مزید 20لاکھ افراد شام سے ہجرت کریں گے۔آئندہ چند روز میں اقوام متحدہ چند یورپی ممالک سے ان افراد کی کچھ تعداد سنبھالنے کیلئے کہے گا۔رپورٹ کے مطابق افریقی ممالک مالی اور جمہوریہ کونگو سے بھی ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔