29 نومبر ، 2013
کراچی…اختر علی اختر…ممتاز کمپیئر اور دانشور ضیاء محی الدین نے کہا ہے کہ داؤد رہبر جب کا لج میں تھے تو میں اسکول میں تھا اور ماڈل ٹاؤن لاہور میں رہتے تھے جہاں ہر مکان کوٹھی کہلاتا تھا وہ راگ لاپتے تھے اور میں طبلے پر سنگت دیا کرتا تھا داؤد رہبر کے چھوٹے بھائی الیاس کو ہم پیار سے پالتو پکارتے تھے جو اکثر ہمارے ساتھ ہوتا تھا داؤد رہبر نے چھوٹی عمر میں شاعر ی شروع کردی تھی ۔انہوں نے ہیجان خیز موضوعات پر بھی شاعری کی ۔میرے چچا عربی فارسی کے فاضل تھے ان کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی تھی انہیں تقویت داؤد رہبر سے ہی ملتی تھی ۔داؤد رہبر کو ماں کی ممتا نہیں مل سکی وہ اس وقت چل بسیں تھیں جب وہ صر ف تین ماہ کے تھے۔ڈھیر ساری شاعری کی مگر اس کو کسی پر مسلط نہ کیا۔ایک خط مجھے لکھا تھا کہ میں توکبیرے کا ایک پنچھی ہے جو میر ا ان کیلئے یادگار خط ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے عالمی اردوکانفرنس کے دوسرے روز ”بیاد رفتگان “ممتاز ادیب و شاعر” داؤد رہبر “کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹر ظفر اقبال ،رضا علی عابدی،پروفیسر سحر انصاری ،ڈاکٹر نعمان الحق ،سید جعفر احمد ،جاذب قریشی ،ڈاکٹر ایوب شیخ ،محمود احمد خان اور صباء اکرام نے بھی مختلف شخصیات پر اظہار خیال کیا۔علاوہ ازیں معروف شاعر جاذ ب قریشی نے شفیع عقیل کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شفیع عقیل مختلف جہتوں میں رہنے والے اور لکھنے والے شخص تھے ۔انہوں نے مضمون لوگ کہانیوں کا کفیل شفیع عقیل پڑھا ۔انہوں نے طویل ادبی و صحافتی زندگی گزاری ۔طنز و مزاح کے اسلوب میں بھی ان کی تحریریں خوب ہیں اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی میں ان کی شاعری قابل دید ہے ۔پنجابی نظمیں اور اردو میں طنزیہ شاعری ان کا خاصہ رہی ہیں ۔ان کے سفر نامے بھی بے حد مقبول ہوئے ہیں ۔لوک داستانیں ان کا موضوع خاص تھا اور ان کا پسند ید ہ موضوع تھا۔انہوں نے جاپانی ،ایرانی ،ترکی ،چینی لوک کہانیوں کے تراجم کئے ۔ڈاکٹرنعمان الحق نے بھی داؤد رہبر کی شخصیت پر روشنی ڈالی ۔انہوں نے کہاکہ میری ان سے 30سالہ وابستگی رہی ۔داؤد رہبر صاحب گفتار تھے ۔وہ کمال کی نثر لکھا کرتے تھے ۔ڈاکٹر پروفیسر ظفر اقبال نے استاد ڈاکٹر غلام مصطفی کے ذکر سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میر ی ان سے 1973ء میں ملاقات ہوئی ۔انہوں نے اس ملاقات میں پچاس شخصیات کے نام املاکرائے کہ ان سے اپنی زندگی میں ضرور ملنا ۔ان ناموں میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا نام بھی تھا 1975ء میں میری فرمان صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے ایک خط کے ذریعے ڈاکٹر غلام مصطفی کو اس ملاقات سے آگا ہ کیا۔فرمان صاحب میں ان کے جتے سے علم تھا ۔انہوں نے اردو علم و ادب کا خوب دفاع کیا۔و ہ ادبی صحافت میں طر ہ امتیاز رکھتے تھے ۔وہ بڑے اور سچے محقق تھے ۔تحقیق میں انہوں نے مولوی عبدالحق کی روایت کو آگے بڑھایا ۔اردو تذکرہ نگار پہ ان کی ایک کتاب ان کی اعلی تحقیق کی غیر معمولی کاوش ہے ۔زندگی زندگی کو تخلیق کرتی ہے انہوں نے بہت سے لوگو ں کو تحقیق و ادب کی طرف راغب کیا ۔وہ اپنے ہی عہد کے بڑے آدمی نہ تھے بلکہ آنے والے عہد کے بھی بڑے آدمی تھے۔”یادرفتگاں “کے اجلاس میں رضاعلی عابدی بولے آگیا ریڈیو والا میں ابتک اردو کی چارکانفرنس میں شریک ہوچکاہوں ۔یاد رفتگاں مجھے پسند ہے ۔جون ایلیا کو فکر کھاتی تھی کہ ہم سب مر جائیں گے ۔اللہ کرے سب زند ہ رہیں تاکہ یاد رفتگان میں کم لوگوں کا ذکر ہوسکے ۔آج کی شام ان تمام افراد کی روحیں خوش ہونگیں جہنیں یاد کیا گیا۔ڈاکٹر ایوب شیخ نے کہا کہ سراج الحق 24اکتو بر 1933کو پیدا ہوئے اور فروری 2013ء میں انتقال فرماگئے ان کے والد محمد یعقوب میمن نیاز کے نام سے جاننے جاتے تھے ان کے زمانے میں عورتوں کو گائے بکری کی طرح رکھا جاتا تھا کیونکہ وہ اسکول نہیں جاسکتی ہیں ۔سراج الحق اپنی بہنوں اور بیٹوں کو لے کر 17برس بعد حیدر آباد آگئے اور ان کی بہن ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی سراج الحق نے صبح ہوئی ہے کہ نام سے ناول لکھا بعد میں انہوں نے اپنے والد کے کہنے پر تخلص ہٹاد یا۔صباء اکرام نے محمودواجد پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری ان سے ڈھاکہ سے طویل دوستی تھی ۔ان کا ہر دوست جانتا تھا کہ وہ بے چین طبیعت کے مالک تھے ۔اور بہت رومانوی بھی تھے۔اکٹر جعفر احمدنے محمد علی صدیقی کی یادیں شیئر کیں۔اس سال جنوری میں محمد علی صدیقی ہم سب سے دور چلے گئے ۔پوری دنیامیں جہاں جہاں اردو کی بستیاں آداب ہوتی ہیں وہاں وہاں محمود علی صدیقی جانے پہنچانے جاتے تھے ۔وہ اپنی وضع کے آپ انسان تھے۔انہوں نے بے انتہاپڑھا اور بے تکان لکھا۔