29 نومبر ، 2013
کراچی… اختر علی اختر …بھارت کے نامور ادیب ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے کہا کہ نسائی شاعری کراچی کی پیداوار تھی، جسے انڈیا میں ہاتھو ں ہاتھ لیا گیا۔ یہ میری بدقسمتی ہے کہ میں آپ کے بیچ میں زیادہ نہیں رہا اور خوش قسمتی اس طرح میں پاکستان آنے کی محبتوں کی بدولت آپ پر نظر رکھ سکتا ہو ں کیوں کہ ہمارے بیچ یہ ایک مستند فرق ہے ۔کشور ناہیداس کی پہلی صف میں شامل تھیں ۔عورتوں پر ظلم کے لیے بہت سنجیدگی سے شاعری کی گئی جب یہ سلسلہ ہندوستان پہنچا اور تقریبا تمام مسائل پر لکھ دیا گیا تھا تو وہاں پھر بھی یہ رجحان قائم نہیں ہوسکا ۔آج اگر پاکستان میں شاعری کا رجحان دیکھیں تو ضیاء الحق کے بعد یہاں کی شاعر ی نے الگ موڑ لے لیا ہے۔ان خیالا ت کا اظہار انہوں نے چھٹی عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز منعقدہ سیمینار بہ عنوان معاصر شاعر ی رجحانات کے موقع پراپنے صدارتی خطاب میں کیا ۔انہوں نے مزید کہا کہ میں نے کبھی نثری نظم نہیں لکھی ۔ ہم آج کے تناظر میں شاعر کی تنہائی کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ ہماری پرانی شاعر ی سے مختلف ہیں تو میں یہ کہوں گا کہ پرانے رجحانات میں جو چیزیں رائج تھیں تو اس میں خود رحمی ہوتی تھی غزل میں بھی ذات کا حصار پایا جاتا تھا۔ممتاز ادیب ودانشورخورشید رضوی نے کہا کہ نثری نظم کی مباحث میں غیر ضروری یا فالتو نظموں کی ملاوٹ نہیں ہوتی ۔اس میں بہت سے لوگ اس بات کو شامل نہیں کرتے ۔ہر کسی کو نثر ی نظم نہیں لکھنا چاہیئے ۔اسکے جواز میں بحث کافی طویل ہوگی ۔ڈاکٹر ضیاء الحسن نے کہا کہ اس دور میں لوگ اپنے بارے میں لکھوانا پسند کرتے ہیں جبکہ سرسید اور دیگر تجزیہ نگار پہلے جب کلام کرتے تھے تو اپنا حال شامل تحریر بھی نہیں کرتے تھے ۔سرسید احمد خان کی صلاحتیں بہت زیادہ تھیں اکثر لوگ ان سے یہ کہا کرتے تھے کہ اپنا وقت برباد کررہے ہیں صرف لکھنے میں جس پر و ہ بہت ناراض ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ میرا عشق ہے ۔پروفیسر سحر انصاری نے اپنے خطاب میں کہاکہ رجحان عہد کی پیداوار ہوتاہے آزاد ی کے بعد جو حالات رہے وہ کئی تجربوں سے گزرے اسی لئے ہجرت کے رجحان پر بھی بہت سے لوگوں نے لکھا ۔میڈیا کے اثرات آج کل بہت زیادہ ہیں ۔تصوف کابہت طویل ترین رجحان رہا ہے ۔کوئی خیال یا تحریک ایک دم ادب کا حصہ نہیں بن سکتی اسے وقت لگتا ہے ۔نظم کی شاعری کے بارے میں تو سب نے ہی کہا ہے اور غزل بھی آج کافی زیر بحث ہوئی ہے ۔جب فیض نے لکھا بول کے لب آزاد ہیں جوکہ آج بہت مقبول ہے اس پر بہت بحث کی گئی اور اکثر تنقید بھی ہوئی ۔نیاڈکشن نئی سوچ کے ساتھ آتی ہے ۔شاعری وہ ہے جو محسوس کی جاتی ہے ۔غزل امیر خسرو سے شروع ہوئی اور آج تک جار ی ہے ۔ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اپنی گفتگو میں کہا کہ نظم کے رجحانات ہر دور کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں نظم نثری بھی ہوتی ہے ۔ایک چیز جو نظم کے رجحانات میں واضح ہوتی ہے وہ اسکے وزن کا خیال ہوتا ہے ۔اس موقع پر خواجہ رضی حیدر نے نظم کے اور ان کے مختلف رجحانات کے بارے میں اظہار خیا ل کیا ۔پروفیسر شاہدہ حسن نے کہا کہ موسم کروٹ بدلتے ہیں۔ تو شاخوں پر پھول کھلنے لگتے ہیں کسی نئے معاشرے میں ایسی ہی شاعری کی ضرورت ہوتی ہے ادب آفاقی صداقتوں کاحامل ہے معاصرشعری رجحانات میں شعری حیثیت کیا ہے ۔اس سلسلے میں شعری مضوعات و مواد کی ضرورت ہوتی ہے آج کی تہذیب ماضی کے تمام عناصر سے ترقی پذیر ہے ۔علم فن وادب کی قید میں رہتے ہوئے بھی آزاد ہیں۔ہمارے عہدکے ممتاز نقاد شمیم حنفی نے لکھا ہے کہ نئی شاعری نے رسمی شاعری کو غیر ضروری بنادیا ہے ۔مشرقی اور مغرب کے دور میں تنہائی خاص طور سے موضوع رہاہے عہد جدید میں فرد کا یہ احساس تنہائی میں دور سے ہورہاہے۔۔اس موقع پر انتظار حسین ،ڈاکٹر مسعود اشعر،ڈاکٹر شمیم حنفی ،افضال احمد سید، سید رضا علی عابدی ،غاز ی صالح الدین ،مبین مرزا ،اختر سعیدی ،کشور ناہید ،حمید شاہد،احفاظ الرحمن بھی شریک تھے ۔