29 نومبر ، 2013
کراچی… اختر علی اختر… معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض نے کہا ہے کہ اردو ادب میں بر صغیر کے چہرے کی روشنی اور داغ نظر آتے ہیں،صحافت اور ادب جسے ایک دوسرے کی ضد سمجھا جاتا ہے، وہ دراصل ایک ہی ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چھٹی عالمی اردو کانفرنس کے موقع پر احفاظ الرحمن کی تصنیف ”زندہ ہے زندگی“کی تقریب رونمائی کے موقع پر خطاب میں کیا ۔ ا ن کا کہنا تھا کہ احفاظ الرحمن کی شاعری میں روح سے رابطہ دکھائی دیتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ کہانی کیسے چلتی ہے کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔انہوں نے اپنی شاعری سے بے سمت نفرت کا خاتمہ کیا ہے۔ اس مجموعے میں عراق اور امریکہ کی لڑائی کا بھی ذکر کیا گیا ہے ، شاعری ان کی شخصیت کا پیکر ہے۔ اجتماعی آرزوں کی شاعری ہے۔ بھارت سے آئے ہوئے دانشور اور ادیب پروفیسرشمیم حنفی کا کہنا تھا کہ ا ن کی شاعری کو جاننا میرے لیے قیمتی تجربے ہیں۔ ان کی شاعری اور شخصت اصولوں پر زندگی گزارنے کی عکاسی کرتی ہے جو کہ غیر معمولی بات ہے ۔ دنیا میں جب بھی مصائب کی بات ہوگی، ان کی شاعری کا تذکرہ کیا جائے گا۔ان کی شاعری پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماحول کو سمجھے کے ساتھ اس کی گھٹن سے نکلنے کے طریقوں کا بھی ذکر کر رہے ہیں ۔ان کی شاعری بہت سے سوالات اٹھا تی ہے جو کہ بہتری کی طرف گامزن رہنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے ۔شاعری میں سوات کی وادی سے ترقی یافتہ شہروں تک جہاں بھی اندھیرا ہے اس کا ذکر ہے۔ میں اس مجموعہ کا خیر مقدم کرتا ہوں اور مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔اس موقع پر معروف کالم نگار زاہدہ حنا کا کہنا تھا کہ زندگی کے کئی دن احفاظ کے ساتھ گزارے ہیں، ایک زمانے میں جب سچ بولنا انتہاہی مشکل اور مسئلہ کن تھا، ہم نے ساتھ گزارے ہیں، صبر کے دریا میں شکر کی ناؤ چلتی تھی، 35 سال کی ہماری دوستی قائم رہی پانچ سال کے بعدملاقات میں بتایا کہ وقت نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔ انہوں نے بہت سال قید میں گزارے مگر گرفتاریاں، لاٹھی چارچ بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ ان کی شاعری اور نثر کا قبلہ ہمیشہ سے حق پر ہی تھا۔ ان کی شاعری میں سیاست لہو کی طرح دورڑتی ہے۔ وہ ہمیشہ خوابوں کے تعاقب میں رہے اور اسی لیے کہا جاتا ہے کہ زندگی محبت کی خوشبو پھیلاتی ہے ۔ اس موقع پر صدر آرٹس کونسل کراچی احمد شاہ نے بھی خطاب کیا۔ جب کہ مصنف نے حاضرین محفل کا شکریہ ادا کیا۔