19 فروری ، 2014
کراچی …کہتے ہیں جب تک سانس، تب تک آس۔ سارے دربند ہوجائیں تب بھی آس کا دروازہ کھلارہتا ہے۔ 24 سالہ عرفان کی زندگی بھی آس اور امید کے سہارے ہی آگے بڑھ رہی ہے۔بیماری میں بہن کی شادی کے لئے جمع کیا ہوا سارا جہیز بھی بک چکا ہے۔عرفان کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔درد سے تڑپتا ہے تو سب ہی رونے لگتے ہیں،کچھ ایسا ہوجائے،کسی طرح اسکا درد کم ہوجائے۔لگتا ہی نہیں یہ پہلے والا عرفان ہے ، بیماری نے اسے بالکل ہی بدل ڈالا ہے۔ خون کا کینسر جان کا ایسا روگ بنا کہ سب کچھ چھن گیا۔بہت سے خواب تھے،جن کو سچ کرنے کی لگن تھی، پر کچھ بھی نہیں ہوا۔ایک سال پہلے بہن کی شادی کے لئے جہیز جمع کرنا شروع کیا لیکن بیماری میں سب ختم ہوگیا۔ والدین کے پاس علاج کے پیسے نہیں اور عرفان کے پاس وقت۔ہاتھوں میں مہندی سجانے کے خواب تھے لیکن عفت کے لبوں پر اب صرف بھائی کی زندگی کی دعائیں ہیں۔بون میرو ٹرانسپلانٹ جیسا مہنگا علاج ہے اور ہاتھ خالی ہیں۔انسان سوچتاکچھ ہے اور ہو کچھ جاتا ہے۔منزل کی تلاش میں نکلتا ہے لیکن راہیں کسی اور سمت کی نشاندہی کرنے لگتی ہیں۔جوان بیٹے کو بوڑھے باپ کا سہارا بننا تھا لیکن بوڑھے باپ کے کندھوں پر جوان بیٹے کی بیماری کا بوجھ بھی آپڑا ہے۔