10 اپریل ، 2014
اسلام آباد…سپریم کورٹ نے ایک بار پھر قرار دیا ہے کہ آئین میں آرمی چیف کو ملک میں ایمرجنسی لگانے کا کوئی اختیار نہیں ،پرویز مشرف کے وکیل کے اس اعتراف نے مقدمے کو مزید کمزور کردیا ہے کہ 3نومبر کا اقدام انہوں نے آرمی چیف کی حیثیت سے اپنی صوابدید پر کیا ، 31جولائی کے فیصلے سے ملک میں آئینی انحراف اور فوجی حکومت کے تصور کا خاتمہ ہو چکا ہے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 14رکنی بینچ نے 3نومبر 2007 کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دینے سے متعلق 31جولائی 2009کے فیصلے کے خلاف پرویز مشرف کی نظر ثانی درخواست اس سال 31جنوری کو زائد المعیاد اور میرٹ پر پورا نہ اترنے پر مسترد کر دی تھی۔ اب 42صفحات پر مشتمل متفقہ تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا ہے جو چیف جسٹس پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے تحریر کیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کی یہ نظر ثانی درخواست ایک ہزار 576 دن زائد المیعاد ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اس تفصیلی فیصلے میں اردو میں 12صفحات پر مبنی اضافی نوٹ بھی تحریر کیا ہے جس میں تعصب کے حوالے سے تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی قرار دیا ہے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری پر تعصب کا الزام نہیں لگایا جاسکتا، دیکھا جائے تو جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے انہیں اور اعلیٰ عدلیہ کے دیگر ججز کو دو مرتبہ غیر آئینی طور پر آئینی فرائض ادا کرنے سے روکا۔سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائل پرویز مشرف سابق چیف جسٹس کے خلاف تعصب رکھتے تھے نہ کہ سابق چیف جسٹس کی پرویز مشرف کے خلاف متعصبانہ سوچ تھی۔