پاکستان
30 جون ، 2014

حکومتی دعوئوں کے باوجودُُمتاثرین شمالی وزیرستان مشکلات سے دوچار

 حکومتی دعوئوں کے باوجودُُمتاثرین شمالی وزیرستان  مشکلات سے دوچار

پشاور......شمالی وزیرستان سے آپریشن ضرب عضب کے باعث نقل مکانی کرکے بنوں پہنچنے والے لاکھوں متاثرین مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے تمام تر دعوئوں کے باوجود سہولیات کے فقدان کے باعث شدید مشکلات سے دو چار ہیں ۔بڑی تعداد میں متاثرہ خاندان جن میں مرد، عورتیں اور بچے شامل ہیںنہ صرف راشن اور نقد امداد سے محروم ہیں بلکہ مقامی اسپتالوںمیںضروری ادویات اور دیگر سہولیات کی کمی کے باعث طبی امداد سے بھی محروم ہے۔راشن سے محروم ہونے والوں میں بڑی تعداد اُن متاثرین کی ہے جواپنا گھربار چھوڑنے کے بعد دیوانہ وار پناہ کی تلاش میں نکلے اور سید گئی چیک پوسٹ پر اپنا رجسٹریشن بھی نہ کراسکے یا جن کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں ہیں جس کی وجہ سے تاحال حکومتی امداد سے محروم ہیں ۔ شمالی وزیرستا ن سے نقل مکانی کرنے والو ں کی بڑی تعداد بنوں میں پناہ گزین ہونے سے بنوں کے تما م اندرون اور بیرون علاقے وزیرستان کا منظر پیش کررہے ہیں ۔بنوں کا کوئی سڑک،چوک یا گلی ایسی نہیں جہا ں وزیرستان کے متاثرین نظر نہ آتے ہوں ، میرعلی سے آنے والے متاثرین کے لئے بنوں اسپورٹس کمپلیکس کے باہرکو ئی متاثرہ خاندان چنگ چی رکشوں اور کندھوں پر راشن اٹھا یا گھروں کی طرف روان دواں نظر آتا ہے تو کوئی تپتی دھوپ میں لمبی لمبی قطاروں میں اپنی باری کا انتظا ر کرتا نظر آتا ہے ۔جبکہ متاثرین کی ایک بڑی تعداد جن میں بوڑھے ،مرد ،خواتین اور بچے شامل ہیں ہاتھوں میں قومی شناختی کارڈز لئے ٹوکن بنوانے اور راشن لینے کی امید پر امدادی سینٹر کے باہرشدیر گرمی اور تپتی دھوپ میںسارا دن انتظار کے بعد ناامید لوٹ جاتے ہیں۔میر علی کے ایک متاثرہ نوجوان عبداللہ نور نے بتایا کہ وہ صبح آٹھ بجے سے قطار میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کررہا تھا اور 12بجے اسے راشن ملا۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق شمالی وزیر ستا ن سے نقل مکانی کرنے والے 36,904 متاثرہ خاندانوں میں 5230 خاندانوں نے بنوں میں پناہ لے رکھی ہے ان خاندانو ن میں سے گنتی کے چندخاندانوں نے حکومت کی جانب سے ایف آر بنوں کے علاقے بکاخیل میں قائم کیمپ کا رخ کیا ہے زیادہ تر نے بنوں میں اپنے عزیز رشتہ داروں اور کرائے کے مکانات میں پناہ لے رکھی ہے جبکہ بنوں میں عزیز رشتہ دار نہ رکھنے والے یا کرایہ ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھنے والے متاثرہ خاندانوں نے بعض سرکاری اسکولوں میں پناہ لے رکھی ہے ۔مقامی باشندوں کے مطابق بنو ں میں وزیرستان آپریشن کے باعث نہ صرف مکانوں کے کرایوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے بلکہ کرائے کے مکانات ناپید ہوچکے ہیں ۔بنوں میں شمالی وزیرستان سے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے متاثرین کے لئے چار الگ لگ امدادی سینٹرز قائم کئے گئے ہیں ۔میر علی کے متاثرین کے لئے بنوں اسپورٹس کمپلیکس ،میران شاہ کے متاثرین کے لئے ایلمنٹری کالج غوری والا ،رزمک کے متاثرین کے لئے مامش خیل ڈگری کالج میں راشن سینٹر قائم کیا گیا ہے جبکہ ووکیشنل کالج میں قائم سینٹر سے تما م متاثرین کو راشن اورنقد امداد فراہم کی جاتی ہے تاہم متاثرین نے زیادہ تعداد کے باعث ان مراکز کو ناکافی قرار دے کر مذید امدادی سینٹر ز کے قیا م کا مطالبہ کیا ہے ۔ بنوں اسپورٹس کمپلیکس کے باہر ایک عمررسیدہ شخص عمر تیاز نے شکایت کی کہ انہیں ٹوکن کے باوجود خیمے اور کمبل نہیں دیئے جارہے ہیں ۔اس موقع پر راشن کی امید پر کھڑی دو معصوم یتیم بچوں کی ماں گل زری نے بتایا کہ وہ آپریشن سے ایک ماہ قبل میران شاہ سے نکل ائی تھی اس کے شوہر کاانتقال ہوچکا ہے مگر اس کے باوجود انکی رجسٹریشن کی جارہی ہے نہ انہیں کوئی انہیں ٹوکن دے رہا ہے ۔میرعلی سے تعلق رکھنے والے عبداللہ نے بتایا کہ وہ اپنے چالیس افراد پر مشتمل خاندان کے ہمراہ سخت گرمی اورانتہائی مشکل صورت حال میں تین کلومیٹر کا فاصلہ پید ل طے کرکے کھجوری چیک پوسٹ پہنچے تھے جس کے بعد 8ہزار روپے کرایہ پر بنوں سے گاڑی منگواکر بنوں پہنچے انہوں نے بتایا کہ ہم نے ریڈیو پراعلان سنا کہ علاقہ چھوڑ دو جس کے بعد ہم نے بے سروسامانی کے عالم میں سب کچھ چھوڑکر نکل پڑے تھے۔انہوں بتایا کہ بکاخیل کیمپ میں گرمی اور سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے پناہ نہیںلی بلکہ اس کی جگہ بنوں میں اپنے رشتہ دار وں کے ہاں رہنے کو ترجیح دی۔متاثرین کو دیگر امداد کے علاوہ چالیس کلو کے آٹے کا ایک تھیلہ پاکستان اور امریکی ادارے یو ایس ایڈ کی جانب سے مشترکہ طور پر تحفتاًدیا جارہا ہے ۔

مزید خبریں :