پاکستان
06 نومبر ، 2014

پاکستان میں مقننہ کے اتحاد نے فوج کو اقتدار سے دور رکھا:امریکی اخبار

پاکستان میں مقننہ کے اتحاد نے فوج کو اقتدار سے دور رکھا:امریکی اخبار

کراچی.......رفیق مانگٹ.......امریکی اخبار’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان میں جاری احتجاج اور دھرنوںمیں پارلیمنٹ سب سے بڑی فاتح بن کر سامنے آئی، اسلام آباد میں چند ماہ سے جاری احتجاجی مظاہروں کا بنیادی ہدف وزیر اعظم نواز شریف کو کمزور کرنا تھا تاہم ان بحرانوں میں پارلیمنٹ کو سب سے زیادہ سیاسی فائدہ حاصل ہوا،جس طرح کے بحران کو عمران خان نے پیدا کیا اس طرح کی صورت حال کو جواز بنا کر 1958ءسے 9بار پارلیمنٹ کو برطرف کیا گیا، فوج کیلئے بار بار مقننہ پر چڑھ دوڑنے کی وجوہات کا حوالہ سیاسی تقسیم ہی رہی۔ اس بار فرق یہ تھا کہ عمران خان کے مطالبات کو غیر جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کی حمایت حاصل ہونے پر دیگر تمام اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ میں حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آئیں۔ یہ رائے بھی سامنے آئی کہ عمران خان کے مختلف ٹی وی چینلز پر ایک جیسے الزامات کے مسلسل نشر ہونے سے ان کے پیروکاروں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔تاہم اس بحران نے عمران کی موجودہ حمایت کو مزید مضبوط کیا لیکن دیگر کی رائے ان کے سخت خلاف ہو گئی۔ ماضی میںعمران خان کو ذاتی طور پر دیگر پارٹیوں کے ووٹرز کی حمایت بھی حاصل تھی جو ان کے لئے ممکنہ پیشکش تھی کہ وہ ان ووٹرز کو تحریک انصاف میں شامل کر لیتے لیکن دو ہفتے کے احتجاج کے بعد عمران خان کی ذاتی مقبولیت میں کمی ہوئی جو رواں برس کے اوائل میں 50فیصد تھی اب کم ہو کر34فی صد رہ گئی۔ مواد کے بھوکے پاکستانی ٹی وی چینلز عمران خان کے احتجاج کو پرائم ٹائم میں کوریج دیتے ہیں۔ اخبار کے مطابق آزادانہ تخمینوں کے مطابق احتجاج کے عروج کے دنوں میں اسلام آباد میں صرف 50ہزار لوگ جمع ہو پائے جن میں اکثریت طاہر القادری کے پیرو کاروں کی تھی۔ قادری نے 21اکتوبر کو دھرنا ختم کیا، اس کے بعد ہفتے کے روز صرف 15سو افراد عمران خان کی تقریر سننے کیلئے آئے۔ حالیہ دنوں میں ٹی وی نے ان کی کوریج میں کمی کردی،حکومت تسلیم کرتی ہے کہ احتجاجوں نے اقتصادی بحالی کے منصوبوں کو نقصان پہنچا یا ہے۔ نواز شریف نے بھی وفاقی کابینہ میں ان دھرنوں اور احتجاج سے ہو نے والے معاشی نقصان کو ذکر کیا ہے۔ اخبار کے مطابق ان دھرنوں اور احتجاج سے معاشی نقصان جو بھی ہوا ہو، تاہم بہت سے پاکستانی اس بات کو ایک مثبت سیاسی اقدام سمجھ رہے کہ پارلیمنٹ بطور ادارہ اس احتجاج کے خلاف ثابت قدم رہا اور اس نے اپنی مضبوطی کو منوایا۔ مقننہ کے اتحاد نے ہی فوج کو اقتدار پر ممکنہ قبضے سے دور رہنے پر مجبور کیا۔ایک سینئر ریٹائرڈ عہدیدار کا کہنا تھا کہ فوج کے اعلیٰ رینکس کے عناصر نے ابتدائی طور پر احتجاج کی حمایت کی تھی لیکن فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے آخر میں فوجی بغاوت کے خلاف فیصلہ کیا۔ مسلح افواج دفاعی اور خارجہ پالیسی کے مسائل پر حکومت کے ساتھ مشکلات کا شکار رہی لیکن مظاہرے سے کسی بھی قسم کے ربط کے الزامات کو انہوں نے مسترد کردیا۔ گزشتہ ماہ طاہر القادری کے دھرنا سمیٹنے کے باوجود عمران خان نے احتجاج جاری رکھا ہواہے۔ انہوں نے وزیر اعظم پر مئی 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا جسے نواز شریف نے مسترد کردیا۔ احتجاج کے ابتدائی دنوں میں نواز شریف کی حکومت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی لیکن بعد میں عمران خان کے علاوہ تمام پارلیمانی جماعتیں وزیر اعظم کے پیچھے متحد ہو گئیں۔ گیلپ پاکستان کے سربراہ اعجاز گیلانی کہتے ہیں کہ اس میں فاتح پارلیمنٹ ہے،اس سے پہلے پارلیمنٹ سویلین بالادستی اور آئین کے دفاع کے لئے کبھی اٹھ کر سامنے نہیں آئی۔ یہ واضح نہیںکہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے احتجاجی مظاہروں سے کس حد تک فائدہ اٹھایا۔تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عسکری قوتوں نے خارجہ پالیسی اور سیکورٹی کے معاملات پر اپنا اثر و رسوخ بحال کر لیا ہے جبکہ ان الزمات پر اسٹیبلشمنٹ کو دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کیا گیا کیونکہ وہ خفیہ طور نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کی کوششوں کی حمایت میں تھے۔ وزیراعظم کی برطرفی اور انتخابات میںدھاندلی کے الزامات کی آزادانہ تحقیقات عمران کے دو اہم مطالبات تھے جو پورے نہیں ہوئے۔ اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس سے بڑھ کر حاصل کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری زندگی میں اس قسم کا سیاسی شعور پہلے اس ملک میں نہیں دیکھا گیا۔عمران خان کاکہنا ہے کہ ان کی باتیں ہر جگہ پھیل رہی ہیں اور مسئلہ دھاندلی کیس سے باہر چلا گیا ہے اور یہ حقوق کے لئے ایک تحریک بن گئی ہے۔عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ قائل ہو چکے کہ وہ نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کریں گے، نواز شریف کو صرف کار کردگی ہی اقتدار پر مستحکم رکھ پائے گی جو وہ ابھی تک دکھانے میں ناکام رہے۔احتجاجی مہینوں میں عمران خان نے پاکستانی معاشرے میں ناانصافی اور خراب طرز حکمرانی پر تنقید کے ساتھ اپنے حملوں کو وسیع کر دیا ہے،اب عمران خان 30نومبر کو ایک بڑا احتجاج کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں،اگرچہ نواز شریف اپنے عہدے پر برقرار ہیں لیکن عمران کے چیلینجز نے انتظامیہ کے اعتماد اوراقدمات اٹھانے کیلئے آمادگی کو دھچکا دیا ہے۔

مزید خبریں :