10 دسمبر ، 2014
اوسلو......... امن کا نوبل انعام حاصل کرکے قوم کا سر فخر سے بلند کرنے والی ملالہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ ایوارڈ کیلئے نامزد کرنے پر نوبل کمیٹی کا شکریہ ادا کرتی ہوں، دنیابھرمیں اپنے چاہنے والوں کاشکریہ ادا کرتی ہوں،اپنے والدین کی شکرگزار ہوں جنھوں نے مجھے آگے بڑھنے کا موقع دیا ، ایک بھارتی اور پاکستانی ساتھ ملکر بچوں کے حقوق کے لیے کام کرسکتے ہیں، اپنی استادوں کی شکرگزارہوں جنھوں نے مجھے تعلیم دی، یہ ایوارڈ ان بچوں کےلیے ہے جو امن اورتعلیم چاہتے ہیں، وقت آگیاہےکہ تعلیم دشمنوں کے خلاف کارروائی کی جائے،کارروائی کی گئی تو پھرکوئی تعلیم کےخلاف قدم نہیں اٹھائےگا، میں چاہتی ہوں کہ دنیاکے ہر کونے میں امن قائم ہو،تعلیم بنیادی زندگی کا اہم جزہے۔ اوسلو میں نوبل انعام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ میں اپنے ہاتھوں پر مہندی سے حساب کے فارمولے بنایاکرتی تھی،چاہتی ہوں کہ خواتین کو مساوی حقوق دیے جائیں، کچھ لوگ دہشتگردی کرکے اسلام کا نام بدنام کررہے تھے، میں نے طالبان کے خلاف بولنے کا فیصلہ کیا، سوات میں شدت پسندوں نے سینکڑوں اسکول تباہ کیے، طالبان کے مقابلے میں ہماری آواز بلند سے بلند ہوتی گئی، نہ طالبان کا نظریہ جیتا اور نہ ہی انکی گولیاں فتح یاب ہوسکیں،طالبان کے مقابلے میں ہماری آواز بلند سے بلند ہوتی گئی، میرے ساتھ زخمی ہونے والی شازیہ اور کائنات آج بھی آگے بڑھ رہی ہیں، یہ کہانی صرف میری نہیں بہت سی لڑکیوں کی ہے، میں آج ان 6 کروڑ 60 لاکھ لڑکیوں کی نمائندہ ہوں جو تعلیم حاصل نہیں کرسکیں، تعلیم سے محروم بچوں کی آواز بن کر کھڑی ہوں،میں ہربچی کی آواز ہوں، دنیا میں آج بھی جنگ،غربت اور عدم انصاف کی کہانیاں عام ہیں، افریقہ میں غربت کی وجہ سے لڑکیاں اسکول نہیں جاسکتیں، شام،غزہ ،عراق اور افغانستان میں پناہ گزینوں موجود ہیں، نوبل امن انعام کی رقم ملالہ فنڈ کے نام کرتی ہوں۔ ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ ملالہ فنڈ سے سوات اور شانگلہ میں اسکول بنائے جائیں گے، میرے اپنے گاؤں میں لڑکیوں کیلیے ابھی بھی کوئی ہائی اسکول نہیں، عظیم لوگ جو تبدیلی لائے وہ اسٹیج پر کھڑے ہوئے جہاں میں کھڑی ہوں،نوبل امن انعام کی رقم ملالہ فنڈ کے نام کرتی ہوں، وقت آگیاہےکہ عالمی رہنماؤں کو تعلیم عام کرنے کیلیے یکجا کیاجائے، ہر بچے کی پرائمری،سیکنڈری اور ہائیر ایجوکیشن کویقینی بنایا جائے، ایسا کیوں ہے کہ لوگوں کو بندوقیں دینا آسان ہے مگر کتابیں دینا مشکل؟ ایسا کیوں ہے کہ لوگوں کو ٹینک دینا آسان ہے مگر اسکول بنانا مشکل، ہمیں انتظار کے بجائے فروغ تعلیم کیلیے کام کرنا ہوگا، ہم سب کو تعلیم کے لیے مل کرکام کرناہوگا، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جو میں کہتی ہوں وہ ناممکن ہے، یہ آخری موقع ہوناچاہیے کہ کوئی لڑکا یا لڑکی فیکٹری میں اپنا بچپن کھودے۔