21 مئی ، 2015
کراچی.......ڈی جی رینجرز بلال اکبر اور آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے سینیٹ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں دو طرح کے دہشت گرد گروپ فعال ہیں، ایک سیکیورٹی اداروں اور دوسرا نمایاں شخصیات اور کمیونٹیز کو نشانہ بنارہا ہے، سانحہ صفورا کا ماسٹر مائنڈ طاہر دو سال پہلے گرفتاری کے بعد کیسے رہا ہوا، تحقیقات کررہے ہیں۔ سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرپرسن نسرین جلیل کی صدارت میں ہوا۔بریفنگ کے دوران ڈی جی رینجرز بلال اکبر نے بتایا کہ کراچی میں دو طرز کی دہشت گردی ہورہی ہے، ایک گروپ پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے اور دوسرے طرز کے واقعات میں دہشت گرد گروپس اسکالرز اور مخصوص طبقوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں دہشت گردی اور جرائم کے 70 فیصد واقعات کی وجہ مقامی ہے۔ ڈی جی رینجرز نے بتایا کہ طاہر منہاس دو سال قبل گرفتاری کے بعدکیسے رہا ہوا اس کی تحقیقات کررہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں ہونے والی دہشت گردی میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہونے کے شواہد کے بارے میں وزارت داخلہ کو بتایا دیا گیا ہے۔ اس موقع پر آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے کمیٹی کو بتایا کہ کراچی سانحہ صفورہ میں ملوث دہشت گردوں سے مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ بس حملے میں دس دہشت گردوں میں سے 4 کو گرفتار کیا گیا ہے، یہ دہشت گردوں کا 25 رکنی گروہ ہے۔ اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں 4500 مدارس ہیںجن میں 3سے 5فیصد مدارس دہشت گردی میں ملوث ہیں۔آئی جی سندھ نے بتایا کہ 14 سے 15 فیصد پڑھے لکھے افراد بھی جرائم میں ملوث ہیں۔ سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کی چئیرپرسن نسرین جلیل نے کہا کہ رینجرز اور پولیس کی کارروائی قابل قدر ہے، ڈی جی رینجرز نےیقین دلایا ہے کہ کسی مخصوص جماعت کے خلاف کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سانحہ صفورا میں مختلف گروپوں پر مشتمل گروہ ملوث ہے۔