12 جون ، 2015
کراچی.......12 جون کو ہر سال دنیا بھر میں بچوں سے جبری مشقت کے خلاف دن منایا جاتا ہے۔ کراچی کے ایسے ہی کچھ معصوم،حالات نے جن کے ہاتھوں سے بستہ چھین کر انہیں مزدوری پر لگادیا ہے۔ کراچی کے معصوم آصف، کامران اوراجمل،ان جیسے تقریباًہزاروں کی تعداد میں بچے صرف کراچی میں محنت و مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کی اس حالت میں والدین اور حکومت دونوں قصوروار ہیں۔ عالمی ادارہ آئی ایل او کی جانب سے ہر سال 12 جون کو دنیا بھر میں جبری مشقت کے خلاف دن منایا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ملک میں اس وقت تقریباً ایک کڑور بیس لاکھ سے زائد بچے جبر ی مشقت پر مجبور ہیں۔معاشرے کا ہر فرد یہ سوال کرتا ہے کہ مشقت کرنے والے ان بچوں کو غربت نے اس نہج تک پہنچا دیا ہے یا پھر ان کی اس حالت کے ذمہ دار والدین ہیں۔حکومت سندھ کی جانب سے سندھ بھر میں 12 چائلڈ پرو ٹیکشن یونٹ موجود ہیں لیکن ان کیا کام کیا ہے؟ماہرین کے مطابق کراچی میں 30 ہزار سے قریب بچے جہاں سڑکوں پر زندگیاں گزار رہے ہیں وہیں ان کا استحصال بھی کیا جارہا ہے۔آئین پاکستان کے تحت 14 سال عمر تک کے بچے سے کسی بھی قسم کی محنت و مشقت کرانے کی جہاں ممانعت ہے وہی تعلیم ،صحت اور زندگی کی بنیا دی ضروریات فراہم کرنا حکومت پر لازم ہے ۔ماہرین کہتے ہیں آئین پاکستان کے مانے والے ایوانوں تک پہنچے کے بعد شاید یہ سب چیزیں بھول جاتے ہیں۔