22 جون ، 2015
اسلام آباد........سپریم کورٹ میں اٹھارویں اوراکیسویں آئینی ترامیم کےخلاف درخواستوں کی سماعت کےدوران اٹارنی جنرل نےدلائل میں کہاکہ ریاست کےخلاف ہتھیاراٹھانےوالوں کافوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوگا، آئینی دیباچہ ابتدائی مسودے کی طرح اصل شکل میں موجود ہے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں فل کورٹ نے آئین میں اکیسویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی،اٹارنی جنرل نے اکیسویں ترمیم کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں،سپریم کورٹ مختلف مقدمات میں تسلیم کر چکی ہے کہ وہ آئینی ترمیم کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی،قانون سازی کا حتمی اختیار عوام کو حاصل ہے، عوام اپنی نمائندہ پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرتی ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ میں یہ نقطہ زیر بحث ہے کہ کیا ایک سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل کیا جا سکتا ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے شیخ لیاقت حسین کیس کی مثال دیتے ہوئےکہاکہ مقدمے میں عسکری قیادت کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیاہے پہلاحصے میں فوجی اہلکارہیں دوسرے میں فوج سے منسلک افراد اور تیسرے میں وہ افراد جو دفاع پاکستان کا حصہ ہیں، ان تینوں درجوں سے متعلق مقدمات فوجی عدالتوں میں ہوتے ہیں۔وفاقی حکومت کےوکیل کل (منگل ) تحریری دلائل پیش کریں گے۔