پاکستان
24 جون ، 2015

بھارت سے مالی امداد کا اعتراف ایم کیو ایم کے سینئر رہنماؤں نے کیا:بی بی سی

بھارت سے مالی امداد کا اعتراف ایم کیو ایم کے سینئر رہنماؤں نے کیا:بی بی سی

لندن........برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھارت سے مالی امداد حاصل کرتی رہی ہے اور اس بات کا اعتراف ایم کیو ایم کے دو سینئر رہنمائوں نے لندن میں پولیس تفتیش کے دوران کیا تھا۔ بی بی سی کے مطابق لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر سے خطرناک ہتھیاروں کی فہرست بھی ملی جس میں ان ہتھیاروں کی قیمتیں درج تھیں۔ بی بی سی کی ویب سائٹ پر معروف تفتیشی صحافی اوون بینٹ جونز کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم بھارت سے مالی امداد لیتی رہی ہے اور اس کا اعتراف ایم کیو ایم کے دو سینئر رہنماؤں نے پولیس تفتیش کے دوران کیا۔ بی بی سی کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ برطانوی حکام جب ایم کیو ایم کے خلاف منی لانڈرنگ کی تفتیش کر رہے تھے تو انہیں ایم کیو ایم کے زیرِ استعمال ایک عمارت سے ہتھیاروں کی فہرست بھی ملی تھی۔ ایک پاکستانی اہل کار نے بی بی سی کو بتایا کہ بھارت نے پچھلے 10برسوں کے دوران ایم کیو ایم کے سیکڑوں عسکریت پسندوں کو تربیت دی۔ بی بی سی کے مطابق بھارتی حکام نے ان دعوؤں کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیا، جب کہ ایم کیو ایم نے کہا کہ وہ اس پر تبصرہ نہیں کرے گی۔ بی بی سی کے مطابق برطانوی حکام نے ایم کیو ایم کے سینئر اہل کاروں کے باقاعدہ طور پر انٹرویو ریکارڈ کیے جس میں انہوں نے بتایا کہ ان کی جماعت بھارتی فنڈنگ حاصل کرتی رہی ہے۔پاکستانی اہل کار نے بی بی سی کو بتایا کہ بھارت نے شمالی اور شمال مشرقی ہندوستان کے کیمپوں میں ایم کیو ایم کے سیکڑوں عسکریت پسندوں کو دھماکا خیز مواد اور ہتھیار چلانے کے علاوہ سبوتاژ کارروائیوں کی بھی تربیت دی،2005ء،2006ءسے پہلے ایم کیو ایم کے درمیانے درجے کے چند ارکان کو تربیت دی گئی مگر حال ہی میں ایم کیو ایم کے جونیئر ارکان کو بہت زیادہ تعداد میں تربیت دی گئی ہے۔ بی بی سی نے جب ان الزامات پر لندن میں بھارتی ہائی کمیشن سے رابطہ کیا تو اس نے یہ جواب دیا کہ گورننس میں خامیوں کو پڑوسیوں پر الزامات لگا کر درست نہیں کیا جا سکتا۔ بی بی سی کے مطابق لندن میں ایم کیو ایم کے خلاف تحقیقات عمران فاروق کے قتل کے بعد شروع ہوئیں جس کے بعد لندن پولیس لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر اور الطاف حسین کے گھر سے 5لاکھ برطانوی پونڈ بھی برآمد کر چکی ہے۔ اس کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف منی لانڈرنگ کی تفتیش بھی شروع کر دی گئی۔ بی بی سی کے مطابق تفتیش کے دوران برطانوی حکام کو ایم کیو ایم کے زیر استعمال عمارت سے ایک فہرست بھی ملی جس میں مارٹر بم، گرینیڈ، بم بنانے کے سامان کے نام اور ان کی قیمتیں درج تھیں۔ جب ایم کیو ایم سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بی بی سی کے مطابق اس اطلاع کا ذریعہ پاکستانی میڈیا رپورٹس ہیں جو بی بی سی کے خیال میں قابلِ اعتبار ہیں۔ بی بی سی کے مطابق برطانوی عدالتیں بھی اب ایم کیو ایم کے خلاف سخت لائن لے رہی ہیں۔ 2011ءمیں سیاسی پناہ کی ایک درخواست کے دوران ایک برطانوی جج نے قرار دیا کہ ایم کیو ایم نے ان دو سو پولیس افسران کو قتل کیا جو اس کے خلاف کراچی میں کھڑے ہوئے تھے۔ ایسی ہی ایک اور درخواست پر ایک جج نے یہ قرار دیا کہ بظاہر اس بات کے بڑے پیمانے پر ثبوت موجود ہیں کہ ایم کیو ایم نے کئی دہائیوں تک تشدد کا سہارا لیا ہے۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ ان کے تمام فنڈز قانونی ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں اور ان کی بڑی مقدار کراچی کی بزنس کمیونٹی امداد کی شکل میں فراہم کرتی ہے۔

مزید خبریں :