17 جولائی ، 2015
کراچی......رفیق مانگٹ......پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے خاندان والوں نے بھارتی صوبے اتر پردیش کے شہر مظفر نگر کے نصف حصے کی ملکیت کا دعویٰ کردیا۔ اگر ان کا خاندان یہ قانونی جنگ جیت گیا تو یوپی کا آدھامظفر نگر شہر ان کی ملکیت ہو جائے گا جس میںریلوے اسٹیشن، ڈ سٹرکٹ مجسٹریٹ کی رہائش گاہ، مرکزی اسکول اور دیگر کئی اہم عمارتیں شامل ہوں گی۔ بھارتی اخبار ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ کی رپورٹ کے مطابق مغربی اترپردیش کے شہر مظفر نگر میں674 کروڑ روپے مالیت کی جائیداد کی ملکیت کا تنازع مبینہ طور پر لیاقت علی اور ان کے رشتہ داروں کے متعلق ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے اس دعوے کو رد کرنے کےلئے تمام پرانے ریکارڈ کھول دیے ہیں۔ 2003ء میں لیاقت علی کے دور کے رشتہ دار ہونے کے دعوے دار 4مقامی باشندوں نے اس اراضی کی ملکیت کے دعویٰ کیا۔ انہوں نے یو پی کے ریونیو کمیشن سے رابطہ کرکے خاندان کی ملکیت 106پلاٹوں کا قبضہ حاصل کرنے کا مطالبہ کیا جوتقریباً مظفر نگر کا 50فیصد ہے۔ مظفر نگر کے ڈی ایم کو دو ہفتے قبل ریونیو کمیشن کی جانب سے اس معاملے کی چھان بین کی ہدایات موصول ہوئی، ان چاروں پرفوری طور پر دھوکہ دہی کا لیبل لگا دیا گیا اور ان کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کراکر تحقیقات شروع کردی گئی جس کی قیادت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (فنانس) کر رہے ہیں۔ لیاقت علی خان مظفر نگر سے 1926ء اور 1940ء کے درمیان مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور صوبائی قانون ساز کونسل کے ایک رکن کے طور پر کام کیا تھا۔ لیاقت علی خان کے ان چاررشتہ داروں کے مطابق لیاقت علی کے خاندان کی ضلع میں بڑی جائیدادتھی اور پاکستان ہجرت کرنے کے بعداس جائیداد کی امانتی تحویل ان کے اپنے کزن عمر دراز علی کودی گئی۔ اس کے بعد عمر دراز علی کے بیٹے اعجاز علی مالک بنے، یہ چاروں دعوے دار اعجاز علی کی اولاد ہیں۔ مقامی تحصیلدار رجنی کانت کا کہنا ہے کہ جمشید علی، خورشید علی، ممتاز بیگم اور امتیاز بیگم نے 26 فروری2003ء میں امانتی تحویل کی دستاویزات جمع کرائی۔ دو سال کے انتظار کے بعد امانتی تحویل کی دستاویزات لکھنو میں ریونیو بورڈ کو ارسال کی گئی۔ بورڈ نے ضلعی انتظامیہ کو ان پلاٹوں کی حقیقی پوزیشن اور ان پر تعمیر عمارتوں کے بارے پوچھا ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے ریکارڈز کی جانچ پڑتال کی اور یہ بات سامنے آئی کہ دعویٰ کی گئی اراضی پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے بنگلے، ریلوے اسٹیشن، کمپنی باغ، مرکزی اسکول اور دیگر اہم سرکاری عمارتیں قائم ہیں۔ مظفر نگر کے ڈی ایم نکہل چندر شکلا کا کہنا ہے کہ یہ ایک فراڈ کا معاملہ ہے، ہم نے ریونیو ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی ہے اور تمام عمارتیں سرکاری زمین پر کھڑی ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر ان کا دعویٰ درست بھی ہے توچار دعویداروں کے پاس اعجاز علی سے منتقلی کی اصلی دستاویزات کہاں ہیں۔ اتنی بڑی جائیداد پر منتقلی پر کی کوئی اسٹامپ ڈیوٹی ادا نہیں کی گئی۔ تاہم ان چاروں دعوے داروں میں سے ایک نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا ان کے پاس اس جائیداد کی ملکیت ثابت کرنے کاریکارڈ موجود ہے، انتظامیہ ایک گندا کھیل کھیل رہی ہے۔ انہوں نے کہاجمشید علی، خورشید علی، ممتاز بیگم اور امتیاز بیگم عمر دراز علی خان کی براہ راست اولاد ہونے کی وجہ سے جائیداد کے مالک ہیں، اس کو ثابت کرنے کے لئے ریکارڈ موجود ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسی طرح کا ایک قانونی مقدمہ 2005ء میں سپریم کورٹ میں تھا اور آزاد بھارت میں یہ شاید سب سے بڑا جائیداد کا تنازع تھا ،سیتاپور اور لکھنؤ میں کم از کم 3ہزارکروڑ مالیت کی جائیداد جس پر سپریم کورٹ نے محمود آباد کے سابق راجہ محمد عامر محمد خان کی ملکیت قراردیا جو ریاستی حکومت کے کنٹرول میں تھی۔