17 مئی ، 2012
اسلام آباد… چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے1990ء میں پیپلز پارٹی مخالف سیاسی رہنماوٴں کو آئی جے آئی کی تشکیل میں رقوم دیئے جانے کیخلاف اصغرخان کیس کی سماعت کی۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ اصغرخان کے وکیل سلمان راجا نے سینئراینکر حامدمیر سے مہران بنک کمیشن کی جو رپورٹ لے کردی اسکے مصدقہ ہونے پر داخلہ اور قانون کی وزارتوں سے ابھی جواب نہیں آیا،ابھی رپورٹ کسی وزارت میں نہیں ملی، یہ پتہ چلاتھاکہ ماضی میں نگران حکومت نے مہران بنک کمیشن رپورٹ کو میڈیا کو دیا تھا۔ اصغر خان کے وکیل سلمان راجا نے ماضی کے اخبارات کی بعض خبروں کا حوالہ دیا اور کہاکہ سابق صدر غلام اسحاق خان نے رقوم تقسیم کی خبروں کی اپنی زندگی میں تردید نہیں کی، کمیشن رپورٹس لینے کیلئے خود بھی اٹارنی جنرل اور وزیرداخلہ سے رابطہ کیا ہے جبکہ اسد درانی حقائق چھپانے کے موڈ میں نہیں، وہ اکاوٴنٹس کی تفصیل بھی بتاسکتے ہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حامدمیر نے عدالتی معاونت کیلئے رپورٹ دی، کسی نے ابھی اس رپورٹ کے مندرجات سے اختلاف نہیں کیا، جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی اور جماعت رقوم لینے کی تردید کرنے عدالت نہیں آئی، انہوں نے اٹارنی جنرل کو کہاکہ سیکریٹری قانون کو بلاکر پوچھیں، کمیشن رپورٹس کہاں ہیں،کمیشن رپورٹس نہ ملیں تو مقدمہ درج کرایا جائے، چیف جسٹس نے سلمان راجا کو بھی کہاکہ وہ درخواست دیں تو اٹارنی جنرل اور وزیرداخلہ کو نوٹس جاری کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے 1997ء میں ایک آرڈر میں کہاتھا کہ آئی ایس آئی میں سیاسی سیل 1975ء سے آج تک قائم ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئی ایس آئی کا پولیٹیکل سیل 1975ء میں بھٹو دور میں قائم ہوا،تاہم اس کا نوٹی فکیشن ابھی عدالت میں نہیں آیا، اس لئے ابھی ہم مزید بات نہیں کرسکتے۔ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے کہ حبیب بینک کمیشن رپورٹ اور آئی ایس آئی میں سیاسی سیل کا نوٹی فکیشن سامنے آئیں تو سب عیاں ہوگا، رپورٹ اور نوٹی فکیشن نہ آئے تو ہم اندھیرے میں ہی باتیں کرتے رہیں گے۔ عدالت کی طلبی پر سیکریٹری قانون یاسمین عباسی بھی پیش ہو گئیں۔