01 ستمبر ، 2015
کراچی........گولیاں، کیپسول، سیرپ، انجکشن، یہ سب دوائیں ہیں یا زہر؟ ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں 45 فیصد دوائیں جعلی ہوتی ہیں، ان جعلی دواؤں میں اینٹوں کا برادہ، پینٹ اور کیڑے مار زہر شامل ہوتا ہے، موت بانٹنے کا مکروہ کھیل جاری ہے لیکن کوئی دیکھنے یا پوچھنے والا نہیں۔ پہلی بار ان مناظر کو دیکھنے کے بعد شاید آپ کو یقین نہ آئے،آیا تو ہمیں بھی نہیں تھا،یہ کسی گائوں،دیہات کی دکانیں نہیں،بلکہ امریکی نشریاتی ادارے نے الزام لگایا ہے کہ یہ پاکستان کے بڑے شہروں کی وہ منڈیاں ہیں جہاں بیماری سے شفا پانے کی امید رکھنے والوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا دھندا چلتا ہے۔ جعلی دوائوں کے کاروبار پر امریکی نشریاتی ادارے نے رپورٹ جاری کی ہے،جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بازار جعلی گولیوں،کیپسول اور سیرپ بنانے والی فیکٹریوں سے بھرے پڑے ہیں اور کوئی دیکھنے یا پوچھنے والا نہیں،ہر بوتل اور ہر پائوڈر ایک جیسا،تبدیلی ہے تو صرف رنگ کی،خود جعلی ادویات بنانے والے کہتے ہیں کہ وہ ہر طرح کی ڈیمانڈ پر مال بناسکتے ہیں، اب اس میں کیا ہوگا،اس سے انہیں غرض نہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دوائیں تیار کرنے والے چار ہزار لائسنس یافتہ ادارے ہیں،لیکن زندگیوں میں زہر گھولنے والی مافیا کی تعداد لاکھ سے بھی اوپر ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک بھی 2010 میں کہہ چکے ہیں کہ ملک میں بننے والی پینتالیس سے پچاس فیصد دوائیں جعلی یا کمتر معیار کی ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق پاکستانی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے جعلی ادویات کے کاروبار کو روکنے کے لیے کوششیں بھی کی ہیں،لیکن اب بھی یہ مافیا سرگرم ہے،پاکستان میں قانون بھی موجود ہےاور اس پر عمل درآمد کرانے والے ادارے بھی وجود رکھتے ہیں،لیکن وہ اس بھیانک کاروبار سے لاعلم ہیں،یا جان بوجھ کرآنکھیں بند کررکھی ہیں،،جوابدہی کی اس کڑوی گولی کو کون نگلے گا۔