02 اکتوبر ، 2015
پیرس......رضا چوہدری......یورپی ممالک میں پناہ گزینوں کی آمد کے ساتھ ہی یہاں کے حکمرانوں اور بعض ممالک میں کئی سنگین خدشات نے جنم لے لیا ہے۔ ان میں سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ کہیں دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ افراد پناہ گزینوں کی شکل میں یورپی ممالک میں داخل نہ ہوجائیں ۔ یا کہیں ایسا نہ ہو کہ پناہ کی آڑ میں انسانی اسمگلروں کو یورپ میں داخلے کا موقع نہ مل جائے۔
ان خدشات کے پیش نظر بعض پالیسی ساز آپس میں سرجوڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور انہوں نے مختلف تجاویز پر غور شروع کردیا ہے۔
فرانسیسی ماہرین نے شورش زدہ ممالک کے مجبور پناہ گزینوں کا خیر مقدم کرنے کی تجویز کے ساتھ ہی ایشیائی ممالک سے آنے والے ان لوگوں کی نشاندہی بھی کی ہے جو انسانی اسمگلرز کے ذریعے یورپ میں داخل ہوتے ہیں۔
پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ پاکستان سمیت کئی ایشیائی ممالک کے بعض سیاست دان اور بیوروکریٹس بھی انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہیں جبکہ یورپ آنے والے پناہ گزینوں میں اکثر وہ ایشیائی باشندے بھی شامل ہیں جو مشرق وسطیٰ کے بجائے افغان شہریت ظاہر کرتے ہیں۔
پالیسی ساز اس نکتے پر بھی غور کررہے ہیں کہ کیا ان پناہ گزینوں کو وہی مراعات حاصل ہوں گی جوعام سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کو ہوتی ہیں ۔ ان مراعات میں یورپی یونین کے ممالک میں آزادانہ آمد و رفت بھی شامل ہے کیونکہ برطانیہ نے دیگر یورپی ممالک کے پناہ گزینوں کے داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ جرمنی شروع روز سے پناہ گزینوں کوایک علیحدہ حیثیت سے دیکھتا اور برتتا ہے۔
یورپی جریدے” ڈپلومیٹ “ نے انسانی اسمگلنگ کے الزام میں ملوث بعض ایشیائی ممالک کے سیاسی رہنماوٴں اور بیوروکریٹس کی خبروں کو شہ سرخیوں کے طور پر شائع کیا ہے۔