30 دسمبر ، 2015
لاہور .....پنجاب اسمبلی کی 2015 کی کارکردگی رپورٹ میں دلچسپ مگر چشم کشا اعدادو شمار سامنے آئے ہیں،معزز اراکین کچھ روز اسمبلی ضرور آئے اور بیٹھے مگران کا یہ آنااور اٹھنا بیٹھنا قوم کو کروڑوں میں پڑ گیا ۔
سن 2015 کے265دنوں میں بھی یہی ہوا ،پنجاب اسمبلی کے منتخب نمائندے خال خال ہی ایوان آئے جو کے کل 58روز بنتے ہیں،371کے ایوان میں بجٹ منظوری یا حکومتی صوابدید پر اراکین کی بڑی تعداد حاضر ہوتی ہے تو رونق لگ جاتی ہے جبکہ عام طور پر حاضری کم اور ماحول بے رونق رہتا ہے یعنی الو بولتے ہیں۔
اس پارلیمانی سال کل 8 اجلاس ہوئے ، چھٹیاں ملاکر کل 89 دن کی کارروائی ہوئی، مگر ہر ہر رکن کےیومیہ ڈھائی ہزار روپے الاؤنس اور دیگر اخراجات پر ایک ارب 22کروڑ روپے اٹھ چکے ،اجلاس اہم بھی ہوتے کہ ایک ایک روز پر 82-82 لاکھ روپے خرچ ہوتے ،تاہم صوبے کے وزیر اعلیٰ بجٹ اجلاس کے سوا کم کم نظر آئے ۔
بولنے کا ریکارڈ کھنگالیں تو شیخ علاؤالدین، میاں رفیق، امجد جاوید، میاں اسلم اقبال، رانا ارشد سب سے زیادہ بولنے والے نکلے ، مفاد عامہ کے کل 52 بل پیش ہوئے جن میں 34 کو منظور کیا گیا ۔
سب سے اہم بلدیاتی ترمیمی ایکٹ تھا جس کے تحت جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات ہوئے ، وارڈ سسٹم متعارف ہوا ،خواتین، لیبر اور اقلیتوں کے بالواسطہ انتخابات کا فیصلہ کیا گیا ، یونیورسٹیوں کے بل منظور کیے گئے،206 قرار دادوں میں 35 کی منظوری ہوئی ، 3737 سوالات آئے جن میں 1210 کے جوابات دئیےجا سکے ۔