03 جنوری ، 2017
بہتر مستقبل کے خواب دیکھنا ہر انسان کا حق ہے لیکن معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا کام ہی ان خوابوں کو چکنا چور کرنا ہوتا ہے۔
نوجوانوں کے مستقبل سے کھیلنے والے انسانی اسمگلروں کے مضبوط گروہوں نے وسطی اور جنوبی پنجاب کو اپنا گڑھ بنا رکھا ہے ان میں گوجرانوالا، گجرات، حافظ آباد، شیخو پورہ، نارووال، راجن پور، مظفر گڑھ، لیہ اور بھکر کے علاقے شامل ہیں۔
یورپ لے جانے کے لیے یہ سنگدل اسمگلر سنہرے مستقبل کے خوابوں میں گم نوجوانوں سے لاکھوں روپے بٹورتے ہیں، پھر ان کو غیر قانونی سرحدی راہداریوں اور سمندری راستوں سے پہلے ایران پھر ترکی اور وہاں سے یونان لے جاتے ہیں۔
یونان پہنچنے والوں کی کل تعداد گھر سے نکلنے والوں کی تعداد کا ایک تہائی ہی ہوتی ہے، باقی افراد یا تو سفر کی صعوبتیں سہنے میں ناکام ہوجاتے ہیں یا پھر سرحدی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوکرجیل چلے جاتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کیلئے یہ ایجنٹس ان افراد کو بلوچستان سے مند بیلو اسمگل کرتے ہیں، وہاں سے یہ قسمت کے مارے کشتیوں یا بحری جہازوں کے ذریعے مسقط پہنچائے جاتے ہیں، یہاں بھی کامیابی کا تناسب صرف تیس فیصد ہےاور خطرات تیس ہزار فیصدہوتے ہیں۔
قانون نافذ کرانے والے اداروں سے بچنے کے لیے یہ لوگ متعدد طریقے استعمال کرتے ہیں،انسانی اسمگلروں نے کم خطرے اور زیادہ پیسوں کے لیے اب ایک نیا طریقہ اپنا لیا ہے، تازہ مثال گوجرانوالا کے نوجوانوں کی ہے، جنہیں ترکی میں یرغمال بنا کر ان کے اہل خانہ سے مزید پیسوں کا مطالبہ کیا گیا۔
گزشتہ سال ہی پنجاب میں آٹھ سو سے زائد انسانی اسمگلر گرفتار کیے گئے جبکہ 2015ءمیں ان گرفتاریوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ ہزار تھی لیکن اس سب کے باوجود یہ مکروہ دھندہ جاری ہے۔
ہر سال یورپ اور ترکی سے ملک بدر کیے جانے والے 32سے35ہزار افراد وہی لوگ ہوتے ہیں جو غیر قانونی طریقوں سے سرحد پار کرتے ہیں۔
ایران سے کم و بیش 15 ہزار افراد ڈی پورٹ کیے جاتے ہیں جبکہ عمان سے ڈی پورٹ ہونے والوں کی تعداد 7ہزار کے لگ بھگ ہے۔