25 جنوری ، 2017
پاناما بحران سےقطع نظرجوخاموشی سےبڑھ رہاہےاور ممکنہ طور پرہماری انتخابی سیاست کی جہتیں بدل سکتا ہےعرصےسےالتواء کی شکارمردم شماری کچھ جماعتوں کی جانب سے خدشات کےاظہار کیساتھ اس سال مارچ میں ہوگی۔ اس کا آئندہ عام انتخابات پرکیااثرپڑےگا؟پچھلی مردم شماری جو 18 سال قبل ہوئی تھی کواکثریت نے تسلیم کیا تھا لیکن تعجب ہے کہ 1999ء تا 2008ء فوج کے اقتدار اور 2008ء تا 2013ء پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں مردم شماری نہ ہوئی جس کی وجہ سیاسی مقاصدتھےحتیٰ کہ مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کوبھی اس میں دلچسپی نہیں تھی لیکن سپریم کورٹ کےاحکام کی وجہ سےوہ مجبور ہے۔
مردم شماری اور اس کے بعد نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں 2018ء کے الیکشن سے پہلے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں بڑھ جائیں گی اوراس سےسیاسی جماعتوں کونوجوان قیادت پارلیمنٹ میں لانے کاخاصاموقع میسر آئے گا۔ اگرچہ مردم شماری ہرحکومت کی آئینی ذمہ داری ہے تاہم ایک بار پھر سپریم کورٹ ہی تھی جس نےحکومت کو اسکا فرض یاددلایا اورحتمی احکام جاری کئے۔ گزشتہ مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی اور گزشتہ 18 سال میں کچھ پتہ نہیں کہ ملکی آبادی میں واقعاًکتنا اضافہ ہواہے۔
اس سے پہلے سپریم کورٹ ہی کے طفیل 2011ء میں کراچی میں قتل، غارت پر سوموٹو ایکشن کے نتیجے میں کراچی آپریشن شروع ہوا تھا۔آبادی میں تیزی سے اضافہ ہماری قومی سیاسی جماعتوں یا حکومت کیلئے کبھی کوئی ایشو نہیں رہا اور مردم شماری کے بعدپاکستان کی آبادی کےاصل اعدادو شمار دیکھنادلچسپی سے خالی نہ ہوگا،لیکن سیاسی جماعتوں کیلئے چونکہ یہ اقتصادی سے زیادہ ایک سیاسی اورنسلی ایشو ہےاس لئے شاید ہم اس معاملےپرمعاشی حوالے سےسنجیدہ بحث کےبجائےسیاست ہوتی دیکھیں۔
اس حوالےسےبڑی مشکلات میں سےایک اورخاص طور پر چھوٹے صوبوں میں سامنےآنے والا مسئلہ افغان مہاجرین اوردیگرغیر ملکیوں کےعلاوہ ’افغانوں‘ کاسٹیٹس ہےاس لئے نادرا کا کردار اہم ہوگا کیونکہ خدشات موجود ہیں کہ کئی ایک کےپاس قومی شناختی کارڈموجودہیں۔اس طر ح کراچی میں تقریباً 40لاکھ بنگالی شہری بستےہیں جو رجسٹرڈ ہونے کیلئےاب سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہےہیں۔پے درپےحکومتیں مردم شماری کی اہمیت سےآگاہ ہونےکےباوجود اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہیںجس کی بنیادی وجوہات سیاسی نوعیت کی ہیں۔
آخر کیوں ہماری قومی جماعتیں اور قوم پرست جماعتیں مردم شماری کی اہمیت نہ سمجھ پائیں اور اب بھی اسے متنازع بنانے کی کوشش کررہی ہیں۔مردم شماری کےبعدنئی حلقہ بندیاں ہونگی جس سےقومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعدادقریباً دگنی ہو جا ئیگی اوراس پرقومی اورقوم پرست جماعتوں کی کڑی نظرہوگی لیکن سوچنے کی بات ہےکہ آیا یہ جماعتیں اس کیلئےتیار ہیں اور انہوں نے اپنا ہوم ورک کرلیا ہے۔
اس اضافے سےمرکزی دھارے کی جماعتوں کو سیاست میں نئے چہرے متعارف کرانے کا موقع ملے گا جس کے لئے بااثر خاندان پہلے ہی متحرک ہو چکے ہیں۔ پنجاب میں مردم شماری سےزیادہ تنازعات نئی حلقہ بندیوں پر جنم لے سکتے ہیں کیونکہ جنوبی پنجاب میں سرائیکی تحریک اگرچہ تقریباًدم توڑ چکی ہے لیکن چھوٹے صوبوں میں اسکے برعکس قوم پرست الیکٹورل سپورٹ کم ہونے کے باوجود پریشر گروپس کے طور پر مضبوط ہیں۔
سب سےاہم کراچی اور کوئٹہ کانتیجہ ہوگاجہاں مختلف نسلی گروپوں میں آبادی کا تناسب ممکنہ طور پر تبدیل ہونےکےخدشات پائے جاتےہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم ، پاک سرزمین پارٹی،جماعت اسلامی اورقوم پرست جماعتیں سندھ میں کافی متحرک لگ رہی ہیں جبکہ بلوچستان میں پشتون قوم پرستوں میں اس ایشو پرشدیدتقسیم موجود ہے۔
نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی جو کہ دونوں مسلم لیگ ن کی اتحادی ہیں نےاس معاملے پر مختلف پوزیشنیں لیکر وفاقی حکومت کیلئے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے اور وہاں آباد افغانوں کی کثیرتعداد ممکنہ طور پر مردم شماری سےپہلے،بعداور اس دوران اولین تنازع رہےگی۔
ماضی میں مردم شماری سیاسی وجوہات یا قومی اورقوم پرست جماعتوں کے دبائو کی وجہ سے تاخیر کا شکار رہی جن میں سے بعض نےاپنےعدم اعتماد کاتحفظات کا اظہار خاص طور پر افغان مہاجرین اور دیگر غیر ملکیوں کی موجودگی کے تناظر میں کیا۔ بلوچستان ،سندھ اور خیبر پختونخوا کی جانب سے خد شا ت کا اظہار کیا جارہا ہے یہ خدشات کس قدر حق بجانب ہیں اور انہیں کس طور دور کیا جاتا ہےیہ متعلقہ اداروں بشمول نادراکیلئےامتحان ہوگا۔