08 مارچ ، 2017
بلوچستان کی خواتین کو تعلیم،صحت اور روزگار کے کئی مسائل کا سامنا ہے۔صوبے میں دوران زچگی ماؤں کی شرح اموات ملک میں سب سے زیادہ ہے۔صوبے کی صرف 25 فی صد خواتین ہی لکھنا پڑھنا جانتی ہیں۔
بلوچستان میں پسماندگی کے باوجود سیاست اورسماجی شعبوں میں خواتین کا آگے آنا خوش آئند ہے تاہم خواتین کی اکثریت تعلیم اورصحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے ۔ بلوچستان میں خواتین کا کمیشن نہیں بنا،باقی صوبوں میں بن چکے ہیں۔ ایک لاکھ میں سے تقریباً8سومائیں دوران زچگی زندگی کی بازی ہارجاتی ہیں۔
یہی نہیں ایک سروے کے مطابق بلوچستان میں دیہی خواتین کی تقریباً پچاس فیصد آبادی غذائی اور خون کی کمی کاشکار ہے۔
رکن قومی کمیشن برائے خواتین ،ثنا ء درانی کا کہنا ہے کہ دو چیلنجز جو بہت بڑے ہمارے سامنے ہیں،ان میں تعلیم اور صحت شامل ہیں، جبکہ خواتین کومساوی حقوق بھی نہیں دیئےجاتے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں غیرت کےنام پر قتل کے واقعات ،گھریلو تشدد اور دیہی علاقوں میں کم سن لڑکیوں کی شادی، بڑے مسائل بنتے جارہے ہیں ۔خواتین کےحقوق پرکام کرنےوالی تنظیموں کوگلہ ہے کہ خواتین کا فیصلہ سازی میں کردار بہت کم ہے جبکہ حکومتی سطح پر قانون سازی بھی سست روی کاشکار ہے۔
عورت فاؤنڈیشن کی صائمہ ہارون کا کہنا ہے کہ خواتین کافیصلہ سازی میں رول بہت کم ہے جب تک معاشی خودمختاری پرکام نہیں ہوگا خواتین کو فیصلہ سازی میں کردار نہیں مل سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ کم عمری کی شادی سے متعلق قانون سازی کو اسمبلی میں پاس ہوناچاہئے، گھریلو تشددپر جوبل بن چکاہےاس کے رول آف بزنس فائنل نہیں ہوئے ۔
بلوچستان حکومت خواتین کےحقوق کےتحفظ کےحوالےسےکس قدر سنجیدہ ہے اس کااندازہ صرف اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ نہ تو ترقی نسواں کی وزارت خاتون کو دی گئی ہے اورنہ ہی ترقی نسواں کی نظامت خاتون بیوروکریٹ کے پاس ہے۔