خصوصی رپورٹس
03 اپریل ، 2017

کثیرا لاولاد خاندانوں کا بالآخر مردم شماری میں اندراج

کثیرا لاولاد خاندانوں کا بالآخر مردم شماری میں اندراج

موجودہ مہنگائی اور معاشی و سماجی مسائل سے بھرپور دور میں بہت سوں کے لیے یہ اچھنبے کی بات ہوسکتی ہے، مگر بلوچستان کے معاشرے کے پس منظرمیں کہ جہاں ایک سےزائد ازدواج اور متعدد بچوں کاہوناکوئی حیرت کی یا یہ کہاجائے کہ کوئی نئی بات نہیں ۔

کوئٹہ کےایک شہری جان محمد کے36بچے اورنوشکی کےعبدالمجید نامی ایک شخص کے42بچے ہیں،یہی نہیں جان محمد کے 36 بچے ان 5بچوں کےعلاوہ ہیں جو انتقال کرگئے اور عبدالمجید کے 42بچے ان 12بچوں کےعلاوہ ہیں جومختلف اوقات میں مختلف وجوہات کی بناء پر وفات پا گئے۔

جان محمد اور عبدالمجید نےاپنے بڑے خاندانوں کا اندراج رواں مردم شماری میں کرالیا ہے، جان محمد کے تمام 36بچےگزشتہ 19سال میں پیداہوئے اور یہ پہلی بار ہے کہ اس نےاپنے خاندان کااندراج خانہ و مردم شماری میں کرایا ہے، کیوں کہ اس کی شادی ہی 1998ء میں پانچویں مردم شماری کے ایک سال کے بعد ہوئی تھی۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ پانچویں اور چھٹی مردم شماری کے درمیانی عرصے میں اس کےہاں 5، نہ 10،نہ 15،نہ 20بلکہ 36بچوں نے جنم لیا، یہ بچے اس کی 3بیویوں سے ہیں، دوسری جانب عبدالمجید کے 42بچے اس کی 6بیویوں سے ہیں، اس کی 2بیویاں انتقال کرگئیں تو اس نےبعد میں 4بیویوں کا شرعی حساب پورا کرلیا تھا۔

اب کچھ بھی ہو، بہرحال کثیرا لاولاد ان دو افراد نے صوبے میں محکمہ خاندانی منصوبہ بندی کی کارکردگی کا پول تو کھول ہیی دیاہے،اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟کیوں کہ کوئٹہ کا 44سالہ جان محمد تو ایک اور شادی کی امید لگائے بیٹھا ہے اور اس کا ہدف بھی بچوں کی پوری سنچری بنانے کا ہے، دوسری جانب نوشکی کے 70سالہ عبدالمجید کے ہاں حال ہی میں ایک نئے بچے کی ولادت نے بھی محکمہ خاندانی منصوبہ بندی کوایک بار پھر بھرپور چیلنج دے دیاہے۔

مزید خبریں :