26 اپریل ، 2017
نئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم گزشتہ چند سالوں میں تشکیل دی گئی کئی جےآئی ٹیز جن میں وزراء اور مشیروں کیخلاف کرپشن ، منی لانڈرنگ یا دہشتگردی کیلئےوسائل فراہم کر نے کےکیسز میں بنائی گئی جےآئی ٹیز بھی شامل ہیں سےکیسے مختلف ہوگی۔ پاناما کیس میں جےآئی ٹی کاکردارمطلوبہ معلومات حاصل کرنے اور مخصوص سوالات تک محدود ہوگا جو سپریم کورٹ نےتیارکئےہیں تاکہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے حوالے سےحقائق کاتعین اوران کی تفصیلات کاپتہ چلایاجاسکے۔کسی عملدرآمد سے پہلےہی متعلقہ اداروں کےحوالےسےتنازعات پیدا کرکےاس عمل کومتنازع بنا دیاگیا ہے۔
جے آئی ٹی کی حدت اس حد تک محسوس کی جا رہی ہے کہ طاقتور کور کمانڈرز کانفرنس کوسپریم کورٹ کو یقین دہانی کراناپڑی کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی سےانکےنامزد افراد کا تحقیقات میں کردار شفاف ہوگا اور وہ مکمل تعاون کریں گے ۔ جے آئی ٹی اراکین کے حوا لےسےحتمی فیصلہ سپریم کورٹ کرےگی لیکن اس بیان نے بذات خودکچھ سوالات کوجنم دیدیا ہےکیونکہ کئی ماہرین وتجزیہ نگاروں بشمول دفاعی تجزیہ کاروں کاکہنا ہے کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کو اس سیاسی نما قانونی جنگ کاحصہ نہیں بنناچاہئےجہاں بعض اپوزیشن رہنما خفیہ اداروں سےنامزدگیوں کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کے سنیئر رہنما اعتزاز احسن کے ریمارکس آئی ایس پی آرکے فوری رد عمل کا موجب بنے۔
اس کیس میں جے آئی ٹی کا کردار محدود ہوگا اور یہ بھی ایک وجہ ہےکہ سپریم کورٹ کے 5رکنی بنچ نے اسےباقی ماندہ سوالوں کے جوابات کے حوالے سے تحقیقات کیلئے 60روز کی مہلت دی ہے۔جے آئی ٹی وزیراعظم،انکے بیٹوں اور کیس سے متعلق کسی بھی شخص کو طلب کر سکتی ہے۔ اس کا ہیڈ کوارٹر ایف آئی اے میں ہو سکتا ہے کیونکہ اسکی سربراہی ایف آئی اےکےایڈیشنل ڈائر یکٹر کر ینگے۔ یہ بھی ممکن ہےکہ سپریم کورٹ اس کیلئےکسی اورمقام کا تعین کرے۔
عام حالات میں جےآئی ٹی پہلےکسی شخص کی پروفا ئل ،خاندانی پس منظر ،وابستگیاں ،اس کا عہدہ اور پھر الزامات عائد کرتی ہے،مذکورہ جے آئی ٹی شاید یہ تمام تفصیلات جمع نہ کرےاوراپنےآپ کوسپریم کورٹ کی جانب سے فیصلے میں دئیےگئےسوالات تک محدود رکھے ۔عام حالات میں جے آئی ٹی گریڈ 18اور 19 کے افسران پر مشتمل ہوتی ہے اور اس نقطے پر اپوزیشن نےتحفظات بھی ظاہر کئےہیں،دیکھتے ہیں یہ کس قدرحقیقی ہیں۔
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے افسران ہیں جودبائو میں آجاتے ہیں اور ایسے افسران بھی ہیں جن کی شہرت ہے کہ وہ دبائو میں نہیں آتے، مثال کے طور پر حسین اصغر ، کلیم امام ،ڈاکٹر شعیب سڈل ، طارق کھوسہ ، ناصر درانی اور ان جیسے کئی دیگر افسران نےاسے ثابت کیا۔اس لئےاس سب دارو مداراس امرپرہےکہ سپریم کورٹ خاص طور پرسٹیٹ بینک آف پاکستان اور دیگر اداروں سےکس کا تقرر کر یگی۔ سب سےحیران کن بات یہ ہےکہ وہ لوگ جےآئی ٹی کی تشکیل کوہی متنازع قرارد ے رہے ہیں۔ان میں سےکسی نےاب تک اس نقطے پر یاسپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف کوئی نظر ثانی اپیل دائرنہیں کی۔یعنی اس سب کامقصد میرٹ پرچیلنج کرنانہیں بلکہ دبائوبر قرار رکھناہے۔
سیاست میں دبائو کی حکمت عملی کوبہت اہمیت حاصل ہےاوراہم اپوزیشن لیڈرعمران خان یقیناًد بائوڈ النےمیں دیگرلوگوں کی نسبت آگے ہیں۔د ھرنے سے لانگ مارچ تک انکی حکمت عملی کارگر رہی جیسا کہ گزشتہ 48گھنٹے میں ہونے والے پیشرفت بھی اس پرشاہد ہے،وہ آنے والے چند ہفتوں میں مزید دبائو ڈالنے کے خواہاں ہیں اور اسلام آباد میں جمعے کے روزجلسےکی کال دے بھی چکے ہیں۔حتیٰ کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثارنےپیرکے روزعمران خان کی موجودگی میں انہیں ہدایت کی کہ وہ عدالتی فیصلوں کااحترام کریں کیونکہ انکی آوازاہمیت رکھتی ہےاورقوم کیلئےہدایت یاپھرگمراہی کا باعث بن سکتی ہےلیکن اس بات کاعمران خان پر کم ہی اثرہواکیونکہ اسکےچندگھنٹےبعدہی پی ٹی آئی کے سربراہ نے ایک ویڈیو پیغام میں اپنے موقف کودہرایااور لوگوں پر زور دیا کہ وہ جمعے کے روز بڑے عوامی جلسے میں شرکت کریں۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی مختلف وجوہات کی بنا پرمختلف قسم کےحربےبروئے کار لا رہی ہے ۔ ابھی تک سابق صدر آصف علی زرداری کے 3قریبی ساتھیوں کے حوالے سے کوئی خبر نہیں آئی تاہم پولیس اور وفاقی حکومت دونوں نے ان کے حوالے سے لا علمی کا اظہار کیا تھا۔آصف زرداری کو نواز شریف سے کوئی ذاتی حساب بھی چکاناہے ۔ ان کے دوست ڈاکٹر عاصم نےایک سخت جےآئی ٹی کاسامناکیااوروہ چاہتےہیں کہ نوازشریف بھی اسی عمل سےگزریں،وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ نواز شریف اسی انداز میں جائیں جیسے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ہٹایاگیااورسب سےبڑھ کریہ کہ ان کو شبہ ہے کہ ان کے تین ساتھیوں کی گمشدگی اور سندھ میں وفاقی اداروں کی کارروائیوں میں بھی ان کاہاتھ ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف اور مسلم لیگ ن سب کے نشانےپر ہے اور یہ جے آئی ٹی نواز شریف اور انکےدو بیٹوں سےخصوصیت سے تحقیقات ،انٹرویو یاسوا لات کریگی ۔اس لئے وزیر اعظم نےانتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی پرچلنےکافیصلہ کیا ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جےآئی ٹی ضرورت پڑ نے پر کیسے وزیراعظم سےپوچھ گچھ کریگی،کیاانہیں ایف آئی اے ہیڈ کوار ٹر طلب کیا جائیگا یا تحقیقاتی ٹیم خودوزیر اعظم ہائوس جائے گی۔ اگر نواز شریف سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کیخلاف ایک وکیل کی طرح ’کالا کوٹ‘ پہن کر تاریخ رقم کر سکتے ہیں تو وہ ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر جا کر اورمشترکہ تحقیقاتی ٹیم کےسوالات کا سامنا کر کےبھی تاریخ رقم کر سکتے ہیں۔سیاستدانوں کو خواہ وہ برسر اقتدار جماعت کے ہوں یا اپوزیشن سے،جے آئی ٹی، جیل اورعدالتوں سےگھبرانا نہیں چاہئےلیکن اہم بات یہ ہےکہ وہ کلیئر ہو کرباہر آتے ہیں یا نا اہلیت کا سامنا کرتے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی کے کیس میں نظیر پہلے ہی قائم ہو چکی ہے۔جنہیں توہین عدالت کیس میں عہد ے سے ہٹایاگیاتھا۔بینظیربھٹوکےقتل کے کیس میں جب ایف آئی اے نے بعض پی پی لیڈروں بشمول اسوقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک ، امین فہیم مرحوم اور دیگر کے انٹرویوز کرنے چاہے تو وزراء نےایف آئی اے ہیڈ کوارٹر جانے سےانکارکر دیا تھا اور ایف آئی اےکوکہا کہ انہیں سوالنامہ بھجوایاجائے۔ناہید خان ، صفدر عباسی اور بعض دیگر لوگ ایف آئی اے گئے اور اپنے بیانات قلمبندکرائے۔
سابق آرمی چیف ریٹائرڈ پرویز مشرف نےبھی پیش ہونے سے انکار کیااور مبینہ طور پر اپنا جواب بھجوایا۔ اصغر خان کیس میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ نے بھی ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر جانے سے انکار کیا اور اپنے جوابات ای میل کے ذریعے بھجوائے ۔ جےآئی ٹی پہلی ٹیموں کی نسبت کئی حوالوں سےمختلف ہوگی،کیونکہ نہ صرف یہ براہ راست سپریم کورٹ کی زیر نگرانی کام کریگی بلکہ جہاں تک حقائق اور تفصیلات جمع کرنے کا سوال ہےتویہ مکمل طور پر با اختیار ہو گی۔
دو بڑی خفیہ ایجنسیوں کا کردار بھی دیگر جےآئی ٹیز کے مقابلے میں اس معاملےمیں مختلف ہوگا ۔جے آئی ٹی میں اہم کردار ایف آئی اے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے نمائندوں کا ہوگا۔ اب زیادہ انحصار سپریم کورٹ کےچنےجانیوالے افسران اور جے آئی ٹی کیلئے تجویز کے گئے ناموں پر ہوگا۔خفیہ اداروں کے افسران کےنام اکثر خفیہ رکھے جاتے ہیں کیونکہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر وہ اپنی شناخت ظاہرنہیں کرتے۔
اپوزیشن نےپہلےہی اعلان کر دیاہےکہ وہ جے آئی ٹی پرکڑی نگاہ رکھیں گےیعنی دبائوبرقراررکھیں گےجوکہ اس بات کی نشانی ہےکہ ایسے وہ کوئی ایسا نتیجہ قبول نہیں کرینگے جس سے وزیر اعظم کو فائدہ ہو۔ اس طرح کے ماحول اور دبائو میں بہتر ہوگا کہ کوئی سپریم میں جے آئی ٹی کے حوالے سے نظر ثانی اپیل دائر کر دےاورجوڈیشل کمیشن کےلئےاستدعا کرے جو متعلقہ اداروں اور محکموں سے معاونت طلب کر سکے،موجودہ حالات میں خواہ کتنے ہی قابل افسران جے آئی ٹی کیلئے نامزد کئے جائیں ان کا کھلے ذہن اور پر امن ماحول میں کام کرنا بہت مشکل نظر آرہا ہے۔شاید کیس نہیں بلکہ جے آئی ٹی کےرکن کی قابلیت اوراعصاب کاامتحان ہوگا۔ وز اور جنگ کے سنیئر کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں۔