27 اپریل ، 2017
بظاہر عام سا نظرآنےوالا ملیریا بخار کامرض بلوچستان میں تشویشناک صورت اختیار کرتاجارہاہے۔یہی نہیں بلکہ صوبے میں ڈینگی اورچکن گونیا کےکیسز بھی رپورٹ ہورہے ہیں۔
بلوچستان میں ملیریا کے پھیلاؤ کی تشویشناک صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوبے کے بتیس اضلاع میں سے 18اضلاع کو انتہائی اور 11کو درمیانے درجے کا خطرناک قراردیا گیا ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کےمطابق گزشتہ برس صوبے میں ہر ایک ہزار میں سے آٹھ افراد میں ملیریا کی تصدیق ہوئی۔صوبائی کوآرڈی نیٹر،قومی ملیریاکنٹرول پروگرام،وزارت صحت اسلام آباد، ڈاکٹر سرمدسعید خان کاجیو نیوزسےبات چیت میں کہناتھا کہ ملیریاکو اتنی اہمیت نہیں دی جارہی جتنی کہ دی جاناچاہئے،ہم اسے بہت ہلکالیتےہیں۔
پروگرام آفیسر،صوبائی پروگرام برائے ملیریا کنٹرول بلوچستان،نصیرحمل کا کہناتھا کہ پروگرام کےتحت صوبےکے29اضلاع میں کام جاری ہےاورمریضوں کو مفت ادویات فراہم کی جارہی ہیں جبکہ مرض کی تشخیص کابھی اہتمام ہے۔
اس کےعلاوہ عملےکی استعداد کارمیں اضافے کےلئےضروری تربیت بھی کی جارہی ہے۔دوسری جانب صوبے میں جن علاقوں سے ملیریا کےکیسز رپورٹ ہورہے ہیں ان کی سرویلینس بھی کی جارہی ہے۔
طبی ماہرین کےمطابق ملیریا کےمرض میں اضافے کی بڑی وجہ غربت ، صحت و صفائی کی کمی اوران سے متعلق شعور و آگہی کافقدان ہے۔اس مرض کی بروقت روک تھام اور علاج بہت ضروری ہےبصورت دیگرایک خاص قسم کے مچھر سے لگنے والی بظاہرعام سی بیماری پیچیدہ شکل اختیار کرنےکےبعدجسم کے دیگر اعضاء کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔
اس حوالےسےسول اسپتال میں کام کرنےوالی خاتون ڈاکٹرڈاکٹر یسری کاکہناتھا کہ ملیریا کےعلاج کےلئےمریض کو مناسب دوائی دینا ضروری ہے۔اگر مرض کابروقت صحیح دوا سے علاج نہیں کیاجائےگا تو ملیریا پیچیدہ شکل اختیار کرسکتاہےاس لئےوقت پرتشخیص اوردوا ضروری ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملیریا سے بچاؤ کےلیے متاثرہ علاقوں میں مچھردانیوں کا استعمال یقینی بناناہوگا۔ تیزبخارکےساتھ کپکپی کی کیفیت اورپسینے کے ساتھ جسم ٹوٹنےاورسردرد سمیت دیگر علامات سامنے آنے کی صورت میں مریض کو فوری کسی اچھےمعالج سے رجوع کرناچاہیے۔