18 مئی ، 2017
2016 میں سب سے زیادہ جبری شادیاں پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں میں ہوئیں ۔دنیا بھر سے رپورٹ ہونے والے تمام واقعات میں سے 43 فیصد واقعات پاکستان میں پیش آئے۔
جبری شادیوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے برطانوی وزارتِ داخلہ اور خارجہ کی جانب سے بنائے گئے خصوصی ادارے’ 'فورسڈ میرج یونٹ‘کے مطابق گذشتہ سال دنیا کے مختلف ممالک سے برطانوی شہریوں کی جبری شادیوں کے کل 1428 کیس رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ برس پاکستان میں برطانوی شہریوں کی جبری شادی یا جبری شادی کی کوشش کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اورایسے 612 کیس سامنے آئے ہیں۔
اس فہرست میں دوسرا نمبر بنگلہ دیش کا ہے جہاں 121 واقعات رپورٹ ہوئےجبکہ بھارت میں 79، صومالیہ میں 47، افغانستان میں 39 اور سعودی عرب میں 16 برطانوی شہریوں کی جبری شادی کے واقعات پیش آئے۔
خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان اس فہرست میں پہلے نمبر پر آیا ہو۔
2015 میں پاکستان میں ایسے 539 واقعات رونما ہوئے تھے جبکہ بنگلہ دیش 2015 میں بھی 89 جبری شادی کے واقعات کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھا۔
فورسڈ میرج یونٹ کے بقول 2016 میں 157 ایسے کیسز بھی حکام کے سامنے آئے جن میں برطانیہ میں ہی جبری شادی کی کوشش کی گئی ہو۔
اعداد وشمار کے مطابق سنہ 2016 میں 1145 جبری شادی کے واقعات میں متاثرین خواتین تھیں جو کل واقعات کا 80 فیصد بنتا ہے جبکہ 283 واقعات میں مرد متاثر ہوئے۔
فورسڈ میرج یونٹ کا کہنا ہے کہ 371 ایسے بھی واقعات سامنے آئے جن میں متاثرہ شخص کی عمر 18 برس سے کم تھی۔خیال رہے کہ برطانیہ میں جبری شادی ایک فوجداری جرم ہے۔
برطانوی حکومت کی تشریح کے مطابق جبری شادی وہ عمل ہےجس میں ایک یا دونوں افراد کو تشدد،ڈرا دھمکا یا پھر ذہنی یامالی دباؤ ڈال کر شادی کرنے پر مجبور کیا گیا ہو۔