07 جون ، 2017
عرب خطے کی سیاسی صورتحال ٹرمپ کے حالیہ دورے سے ہی کشیدہ چل رہی تھی لیکن تازہ ترین چھ ممالک کے قطری بائیکاٹ نے بڑی ہلچل مچادی ہے اور ایسا بحران گلف کوآپریشن کونسل کی تیس سالہ تاریخ میں پہلی بار اٹھاہے۔
اس پس منظر میں کچھ سوال ابھر کر سامنے آرہے ہیں کہ قطر کا معاشی اور سیاسی بائیکاٹ کرنا خطے میں کسی نئی جنگ کا پیش خیمہ تو نہیں ؟
کیا سعودی قیادت اور دیگر عرب ممالک قطر پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے ؟
کویت کے2014 کے ثالثی کردار کے بجائے اس بار ٹرمپ کی خدمات لی جائیں گی ؟
قطر دواعشاریہ چار ملین آبادی والا ملک ہے جس میں صرف دس فیصد قطری آبادی رہائش پذیر ہے اور باقی غیر ملکی محنت کش ہیں ۔قطراوپیک کا اہم رکن اور دنیا کا ایل این جی گیس پیدا کرنے والے ملک کے ساتھ دنیا کے چند مضبوط معیشت والے ممالک میں شامل ہے ۔
عرب علاقائی سیاست میں پہلی بار سعودی عرب اور دیگر چھ ممالک نے مل کر دوحا حکومت پر دباؤبڑھانے کے لئے کچھ الزامات لگاتے ہوئے اس کا سفارتی بائیکاٹ کردیا ۔ عرب ممالک کی شکایات ہیں کہ قطر دہشت گرد تنظیموں، داعش، اخوانالمسلمین اور حماس کی مالی و اخلاقی مدد کرتا ہے۔
سعودی عرب کے نئے اتحاد پر دبے لفظوں میں تنقید اور قطری میڈیاکا عرب عوام کے ذہن بدلنے کی سازش کو نامنظور کرتا ہے اور ایران کی طرف جھکاؤ کے ساتھ ساتھ حودثی باغیوں کی مدد سے عرب خطےمیں غیر مستحکم کرنے کی کوشش بھی ان کے الزامات کی فہرست میں شامل ہے۔
چھ عرب ممالک نے دوحا کا بائیکاٹ کرتے ہوئے زمینی ، سمندری اور فضائی حدود پر مکمل پابندی لگا ئی ہے۔ قطرکی بڑی درآمد ایل این جی ہے ۔ اس کی صرف دس فیصد گیس زمینی حدود سے مصر اور عرب امارات کو برآمد کی جاتی ہے جبکہ باقی سمندری راستوں کے ذریعے باقی دنیا تک پہنچتی ہے لہذا پہلا اثر تو اس کی فضائی کمپنی کو جھیلنا پڑے گا ۔
یاد رہے کہ ستر کی دہائی میں جو مقام پی آئی اے کو حاصل تھا ۔ وہ آج "قطر ایر لائن " کے پاس ہے ۔۔ یہ خطہ کا سب سے زیادہ مصروف ایر ٹریفک راستہ ہے۔اورراستے لمبے ہونے سے کرائے بڑھیں گے ۔
قطر زرعی ملک نہیں ہے لہذا اس کو زرعی اجناس کے لیے پڑوسی ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ سعودی عرب سے سب سے لمبی سرحد ملنے کی وجہ سے ا س کی غذائی اجناس اور تعمیراتی سامان سعودی سرحد کے ذریعے ہوتا ہے ۔اب اگر یہ سرحد لمبے عرصے کے لئے بند ہو گی تو یقیناً عوام پر اس کے معاشی اور سماجی اثرات مرتب ہوں گےکیونکہ دو ہفتوں میں قطری عوام ان چھ ممالک سے واپس قطر آجائیں گے۔
لگتا کچھ یوں ہی ہے کہ اگر جلد یہ معاملہ نہیں سلجھا تو یہ چنگاری بھڑک کر آگ بن جائے گی اور پھر اس کو روکنا مشکل ہو جائے گا ۔ خطے میں مذہبی منافرت کو فروغ حاصل ہوگا لیکن تازہ ترین خبروں سے محسوس یوں ہی ہے کہ دوسری بار کویت کے امیر کشتی کو اس طوفان سے نہیں بچا سکیں گے۔اور یہ کشیدگی بڑھے گی۔
امریکی صدر نے اس گرما گرمی کے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے شاہ سلمان کو فون کرکے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی بھر پور مدد کا ادا کیا ۔ جبکہ امریکی وزیر دفاع جیم میٹرز نے اپنے قطری ہم منصب سے کہا کہ" خطہ میں اس کی اہمیت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کیونکہ قطر ان کے دس ہزار افواج کی "العبید بیس" میں مہمان نوازی کرتا ہے"
اسلامی دنیا واضح طور پر ابھی شش و پنچ میں ہے کہ کس کا ساتھ د ے اور کس کا نہیں ۔ ترکی نے کھول کر قطر بائیکاٹ پر تنقید کی ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل نہ ہو سکا تو لازمی طور قطر کا جھکاؤ مزید ایران کی طرف بڑھے گا ۔ سمندی حدود میں بھی اس کے پاس صرف ایران اور اومان کی بند گاہ رہ جائے گی۔
پاکستان اگر ثالثی کا کردار ادا کرسکتاہے تو ٹھیک ورنہ خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔اور اگر اس بڑھکتی ہوئی آگ کو کہیں اور سے تیل دیا گیا تو بھی پاکستان کو دامن بچانے کی کوشش کرنا ہوگی کیوں کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے اور تمام اسلامی ممالک کو مل کر افہام و تفیہم کے ساتھ اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے ۔