24 اگست ، 2017
میاں صاحب کے منظر سے ہٹنے کے بعد کچھ عرصے کے لئے بظاہر میدان صاف ہے۔کچھ ”شیروں“کے دانت کھٹے کر دیے گئے ہیں یا”دودھ “ کے بنا دیے گئے ہیں۔جو تھوڑے بہت دانت پیس رہے ہیں و ہ بھی کسی خاص” للکار“ کی صورت میں ”دانت نکالنے“ پر مجبور ہوں گے۔
پیپلز پارٹی کی صورت حال عجیب سی ہے۔ وہ ن لیگ پر موجودہ کڑے وقت اور آنے والے برے وقت کا سوچ کر خوش بھی ہیں، اس کے بعد ملنے والی کسی” اسپیس “کی تلاش میں بھی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ پی ٹی آئی کی جانب سے” اصلی تے وڈی“ اپوزیشن بن کر سامنے آنے کی وجہ سے دباؤ کا شکار بھی۔
زرداری صاحب کوشش میں ہیں کہ بلاول کے ذریعے بڑھکیں لگوا کر سیاسی ماحول گرم بھی رکھا جائے اور’’ان“ کی خوشنودی کے لئے نون لیگ کو آنکھیں دکھانے کا عمل بھی جاری رکھا جائے۔ پی ٹی آئی نے بہرحال جوش میں آکر پیپلز پارٹی کے ساتھ محاذ کھول دیا ہے جس سے سیاسی ماحول کی پیچیدگی بڑاگئی ہے۔ ایک طرف حکمران اتحاد بے چین نظر آتا ہے تودوسری جانب اپوزیشن بھی ن لیگ سے آخری لڑائی کے لیے متحدنہیں ہے۔
زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو ن لیگ کو اگلے الیکشن میں واضح اکثریت ملنا یوں مشکل نظر آتا ہے کہ ایسا اگرہوا تو میاں صاحب کو” کھڈے لائن “لگانے کا بڑا مقصد پورا نہیں ہوگا۔
اگر متحدن لیگ انتخابات تک پہنچ گئی تو بہر حال اسے سنبھالنا آسان نہ ہوگا، لیکن کیا کریں کہ بغیر ”چمک “یا ”تڑی“ کے ن لیگ میں ڈینٹ ڈالنا آسان نہیں لگ رہا۔
اس لئے” رنگ ماسٹروں“ کی کوشش یہی ہوگی کہ پہلے پہل تو پنجاب میں کچھ گنجائش بنائی جائے اورن لیگ کو کچھ حلقوں میں تھوڑا ٹھنڈا کیا جائے ۔پی ٹی آئی اور پی پی پی اگر زور لگا کر کچھ مزید” اسپیس “لے لیں تواگلے الیکشن میں ”رنگ ماسٹر“ ڈیڈ لاک کے نام پر قومی حکومت یامخلوط حکومت بنانے کا چانس بن سکتا ہے جس سے معاملات کو کافی حد تک قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔
این اے 120 میں کیا ہوگا؟
دیکھا جائے تون لیگ کو اپنے گڑھ میں اپنی ہی سیٹ واپس لینے کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہونی چاہئے لیکن صورتحال اور موسم ن لیگ کے لئے زیادہ موافق نہیں۔حکو مت میں ہونے کے باوجود ایسا لگ رہا ہے کہ ن لیگ اپوزیشن میں ہے۔ حکمراں جماعت بہت سے اہم اداروں پر سے کنٹرول یا تو کھو چکی ہے یا پھر اسکی گرفت کمزور پڑ گئی ہے۔
این اے 120 نتائج کے اعتبار سے آنے والے الیکشن کے لئے بہت اہم ثابت ہو گی
لہذا یہ مقابلہ ان کے لئے ”واک ان دا پارک“ ثابت ہونا قرین قیاس نہیں۔اگر پی ٹی آئی کی امیدوار یاسمین راشد جیت گئیں یا اپنی پارٹی کو ووٹوں کی دوڑمیں کلثوم نواز کے نزدیک بھی لے آئیں تو یہ ن لیگ اور اس کے ووٹر کے لئے 120وولٹ کا جھٹکے سے کم نہ ہوگا اور اسکا اثر اگلے عام انتخابات میں پارٹی کے مورال پر بھی پڑے گا ۔آثار یہی بتا رہے ہیں کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی اس سیٹ کے حصول یا اس پر اچھی پرفارمنس کے لئے ایڑ ی چوٹی کا زور لگا دیں گے اور یہ سیٹ نتائج کے اعتبار سے آنے والے الیکشن کے لئے بہت اہم ثابت ہو گی۔
اب آتے ہیں بڑے سوال کی جانب اور وہ یہ کہ کیا اگلے ایک سال میں ن لیگ جاری ترقیاتی منصوبے پورے کر پائے گی؟کیا وہ اپنے دور حکومت کا اختتام ایسے حالات میں کر سکے گی کہ اس کا ووٹر بیس (جو یقینی طور پر پنجاب ہے)خوش ہو، میاں صاحب کو مظلوم سمجھتا ہو اور پیپلز پارٹی،پی ٹی آئی کے وعدوں اور انتخابی چوکڑیوں کو خاطر میں نہ لائے۔یہ ہیں وہ بڑے سوالات جن کے جواب ن لیگ سمیت ہر بڑی سیاسی جماعت اور رنگ ماسٹر کو ڈھونڈنا ہیں۔
حالات کا رخ تو یہی بتا رہا ہے کہ ن لیگ کو ان تمام مقاصد کے حصول کے لئے بہت پاپڑ بیلنے پڑیں گے اور اپنے لوگوں کو قریب اور متحد رکھنے کے لئے کافی محنت کرنے کے ساتھ مقتدر اداروں کے ساتھ نہایت تندہی سے مسلسل آنکھ مچولی کھیلنا ہو گی۔
خرم صدیقی جیو نیوز سے وابستہ ہیں، وہ ٹوئٹر پر @Siddiqi__ کے نام سے موجود ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔