25 اگست ، 2017
واشنگٹن: صدرڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ انتہائی تنقیدی خطاب کے بعد جب پاکستان اور امریکا کے درمیان سفارت کاری کو شدید مشکلات کا سامنا ہے وہیں دونوں ممالک نے کلیدی امور میں اپنے اختلافات دور کرنے اور تعلقات بچانے کیلئے بیک چینل رابطے قائم کر لیے ہیں۔
رواں ماہ کے شروع میں سابق سفارتکاروں، فوجی حکام اور سیکورٹی ماہرین کے گروپ نے واشنگٹن میں اپنا تیسرا آف دی ریکارڈ اجلاس کیا جس میں افغان امن کیلئے پاکستان کی حمایت، امریکا کے بھارت سے بڑھتے تعلقات، نئی دہلی کا افغانستان میں کردار اور سی پیک کی شروعات کے بعد اسلام آباد کا بیجنگ کی جانب بڑھتا ہوا جھکائو زیر غور آئے۔
اس بات چیت میں شرکت کے بعد امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ طرفین نے درپیش ایشوز پر کھل کر بات کی۔
مستقبل میں باہمی تعلقات کیلئے اس کی بنیاد پر حکومت کو عمل درآمد کیلئے سفارشات تیار کی جائیں گی۔ اس غیر رسمی رابطے کو ٹریک ٹو ڈپلو میسی بھی کہا جاسکتا ہے ۔
امریکا میں پاکستان کے موجودہ سفیر اعزاز چوہدری نے ان رابطوں کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹریک ٹو سرکاری سطح پر رابطوں کا متبادل تو نہیں لیکن حکام اس سے استفادہ ضرور کر سکتے ہیں۔
ان بیک چینل رابطوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والوں میں لیفٹیننٹ جنرل ( ر) اشفاق ندیم، افغانستان میں سابق سفیر محمد صادق، امریکا کی طرف سے سابق معاون وزیر خارجہ رچرڈ باؤچر، سابق سفیر رابن رافیل اور سیکورٹی ماہرین ڈاکٹر ٹریشیا بیکن اور ڈیوڈ اسمتھ شامل تھے۔
ولسن سنٹر میں ایشیاء پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا کہ آف دی ریکارڈ ماحول میں سابق اعلیٰ حکام کے درمیان باہمی تعاون کا راستہ نکالنے کیلئے تبادلہ خیال ازخود انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں باہمی تعاون کے ممکنہ امور کو سامنے لایا گیا۔
رچرڈ باؤچر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی جانب سے کوششوں کی تعریف اور افغانستان کے ساتھ بارڈر منیجمنٹ کیلئے پاکستانی تجویز کی حمایت کی ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنی علاقائی حدود خصوصاً قبائلی علاقوں میں ریاست کی عمل داری کو قائم کیا لیکن دیرپا امن کیلئے سرحدوں پر مؤثر کنٹرول کی ضرورت رہتی ہے ۔
اس بات چیت کا اہتمام 2 تھنک ٹینکس ولسن سنٹر واشنگٹن اور اسلام آباد میں قائم ریجنل پیس انسٹی ٹیوٹ نے مل کر کیا۔
اس موقع پر امریکا میں پاکستان کے سفیر اعزاز چوہدری نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کا خواہاں ہے جو پورے خطے کیلئے خوش آئند بات ہے لیکن 16 سالہ افغان تنازع سے یہ واضح ہوگیا کہ دیرپا امن صرف جامع سیاسی عمل کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔
اس حوالے سے پاکستان، امریکا اور افغانستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے ۔ ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔