31 اگست ، 2017
یہ مشرف کے دور ستم کا قصہ ہے۔ ایک شام احمد فراز صاحب کو جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں مدعو کیا اور اُن سے پوچھا کہ آج کے دور میں ایک صحافی کا کیا کردار ہونا چاہیے۔ فراز صاحب نے اپنی مشہور نظم ’محاصرہ‘ کے یہ اشعار پڑھ دیئے:
مرا قلم کردار نہیں اُس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
یہ پروگرام نشر ہونے کے کچھ دنوں بعد مشرف حکومت نے مجھ پر پابندی لگا دی اور میں سڑکوں پر احتجاج میں مصروف ہو گیا۔ احمد فراز وکلا اور صحافیوں کی اس احتجاجی تحریک میں شامل ہو گئے۔ ایک دن جناح ایونیو اسلام آباد پر میں نے اُنہیں نعرے لگاتے دیکھا تو اُن سے کہا کہ آپ کی طبیعت ناساز ہے آپ جون کی گرمی میں باہر نکلنے سے گریز کریں۔
فراز صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے جھٹکا دیا اور کہا کہ یہ پرویز مشرف خود کو بادشاہ سلامت سمجھتا ہے اس نے ججوں کو نظربند کر دیا ہے اور میڈیا پر پابندیاں لگا دی ہیں وہ سمجھتا ہے کہ ان پابندیوں سے اُس کی بادشاہت بچ جائے گی لیکن وہ نہیں بچے گا اُسے جانا ہو گا تم میری فکر نہ کرو میں مشرف کو ایوان صدر سے نکال کر مروں گا۔
مشرف نے 18؍اگست 2008ء کو صدارت سے استعفیٰ دیا اور احمد فراز نے 25؍اگست 2008ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کیا۔ احمد فراز کی نویں برسی پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں منعقد کی گئی ایک خصوصی تقریب میں یہ قصہ بیان کرتے ہوئے دل بہت بوجھل تھا۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی نے میرے علاوہ پروفیسر فتح محمد ملک، سینیٹر شبلی فراز، سعدی فراز اور برادرم وجاہت مسعود کو بھی دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا موقع فراہم کیا تھا۔ دل کو تسلی یہ ہوئی کہ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے پروفیسر فتح محمد ملک صاحب سے گزارش کی کہ نئی نسل کے لئے احمد فراز کے کلام کا ایک انتخاب کر دیجئے تاکہ بغاوت کی روایت آگے بڑھتی رہے اور ملک صاحب نے بخوشی اس باغیانہ سرگرمی میں اہم کردار ادا کرنے کی ہامی بھر لی۔
علامہ اقبال کے نام پر قائم یونیورسٹی میں احمد فراز کی باغیانہ روایت کی پذیرائی یہ ثابت کرتی ہے کہ پاکستان میں سب برا نہیں کچھ اچھا بھی ہو رہا ہے۔ وہ شاعر جسے بادشاہ اور اس کے حواری غدار کہتے تھے وہ آج اہل وطن کے دلوں کا بادشاہ ہے اور پاکستان کی یونیورسٹیوں میں اُسے عزت بخشی جا رہی ہے جبکہ مشرف دیارِ غیر کی یونیورسٹیوں میں تقریر کے لئے بلایا جاتا ہے تو پاکستانی طلبہ کے احتجاج کے باعث اُس کا پروگرام ہی منسوخ ہو جاتا ہے۔ احمد فراز مرنے کے بعد بھی معتبر اور سچا ہے جبکہ مشرف کی زندگی اُس کے لئے تضحیک بن چکی ہے۔
صدارت سے فارغ ہوئے نو سال گزر گئے لیکن دوبارہ صدر بننے کی تمنا مشرف کی ذہنی بیماری بن گئی ہے۔ موصوف کوئی ڈھنگ کی سیاسی جماعت بنا سکے نہ کوئی سیاسی پروگرام دے سکے البتہ ٹی وی چینلز پر خوب اہمیت حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز کو ڈھیروں انٹرویوز دینے کے باوجود وہ سیاست میں کوئی مقام نہیں بنا سکے بلکہ آج وہ پاکستان آرمی کے لئے ایک ایسا بوجھ بن چکے ہیں جس کا وزن روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
مشرف کبھی پاکستان آرمی کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں کبھی اُس کے کندھے پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پاکستان آرمی مشرف سمیت کسی بھی سیاستدان کو اپنے کندھوں پر چڑھانے کے لئے آمادہ نظر نہیں آتی۔ مشرف کی سیاسی ناکامی اُن سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو اپنے آپ کو بادشاہ گر سمجھتے ہیں۔ ایک زمانے میں کچھ خفیہ اداروں کو بادشاہ گر سمجھا جاتا تھا۔ آج کے زمانے میں میڈیا کو بھی بادشاہ گر یعنی کنگ میکر سمجھا جانے لگا ہے۔
گستاخی معاف! میری ناچیز رائے میں ناں تو خفیہ ادارے بادشاہ گر رہے ناں ہی میڈیا بادشاہ گر ہے۔ تازہ ترین مثال نواز شریف کی نااہلی ہے۔
یاد کیجئے! 2014ءمیں عمران خان اور طاہر القادری کا دھرنا شروع ہوا تو کچھ ٹی وی چینلز اور اینکرز نے نواز شریف حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دینی شروع کر دیں۔ یہ دھرنا کئی مہینے چلا اور اس دھرنے کے پیچھے کئی خفیہ ہاتھ بھی متحرک نظر آئے لیکن یہ خفیہ ہاتھ کچھ ٹی وی چینلز کی مدد سے نواز شریف کو حکومت سے نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ دھرنا ناکام ہو گیا۔
2016ء میں پاناما اسکینڈل سامنے آیا۔ اس اسکینڈل کا شور پوری دنیا میں تھا۔ نواز شریف نے خود کو احتساب کے لئے پیش کیا تو اپوزیشن جماعتوں نے تجویز پیش کی کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں طے کر لیا جائے لیکن نواز شریف حکومت نے معاملہ طے کرنے کی بجائے اسے اُلجھائے رکھنے کی پالیسی اختیار کی۔ اس پالیسی کے نتیجے میں یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا۔
سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت شروع ہوئی تو مسلم لیگ (ن) کے وزراء نے میڈیا کے ذریعہ سپریم کورٹ کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا۔ وزیر اعظم ہائوس میں ایک میڈیا سیل قائم تھا۔ اس میڈیا سیل کے ایک سابق رکن کل رات کو مجھے بتا رہے تھے کہ ایک دن خود انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر تین چار بڑے ٹی وی چینلز کو قابو کر لیا جائے تو نواز شریف کی حکومت کے لئے خطرات ختم ہو جائیں گے۔ پھر وزیر اعظم ہائوس سے واٹس ایپ کالوں کے ذریعہ میڈیا مینجمنٹ شروع ہو گئی۔
ان واٹس ایپ کالوں کے عینی شاہد نے جو کچھ دیکھا وہ سن کر میں تو حیران نہیں ہوا کیونکہ مجھے یہ سب پہلے سے پتہ تھا لیکن میری کوشش ہے کہ یہ عینی شاہد اپنی زبان دنیا کے سامنے کھول دے تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ میڈیا کنگ میکر نہیں رہا۔
2014ء میں کچھ ٹی وی چینلز نواز شریف کی حکومت گرانے میں ناکام رہے اور 2017ء میں کچھ ٹی وی چینلز نواز شریف کی حکومت بچانے میں ناکام رہے۔ جن لوگوں نے سوشل میڈیا پر گالی گلوچ اور پروپیگنڈے کے ذریعہ کچھ صحافیوں کو دباؤمیں لا کر سچ بولنے سے روکنے کی کوشش کی وہ بھی اپنی کوششوں میں ناکام رہے۔
سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ ججوں کو بلیک میل کرنے کی کوششیں بھی ناکام رہیں۔ وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ اصل کنگ میکر اللہ تعالیٰ کی پاک ذات اور پھر عوام ہیں۔ آواز خلق نقارہ خدا ہوتی ہے اور خلق خدا صرف ایک مخصوص علاقے یا صوبے میں نہیں پورے پاکستان میں رہتی ہے۔
پاکستان کے میڈیا کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا کنگ میکر نہیں ہے۔ میڈیا کو صرف صحافت کرنی چاہئے سیاست نہیں۔ ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر کسی کو ہیڈ لائن بنانا اور بریکنگ نیوز کے طور پر نمایاں کرنے، کسی من پسند کی خبر صفحہ اول پر لگانے اور ناپسند کی خبر صفحہ تین پر لگانے سے آپ کی انا کو تسکین تو مل سکتی ہے لیکن آپ کی یہ بددیانتی عوام سے مخفی نہیں رہتی اور اُنہیں سب پتہ ہوتا ہے کہ آپ صحافت نہیں سیاست کر رہے ہیں۔ پاکستان کو آگے لے جانے کے لئے ضروری ہے کہ سب اپنے گریبان میں جھانکیں اور سب سے پہلے نام نہاد بادشاہ گروں کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہے۔
حامد میر کا یہ کالم 31 اگست کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔