Time 11 ستمبر ، 2017
بلاگ

تینوں میں کوئی فرق نہیں

کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ جن احتساب عدالتوں میں آصف علی زرداری دھکے کھایا کرتے تھے انہی احتساب عدالتوں میں نواز شریف اور ان کے بچوں کے بھی چکر لگیں گے۔

مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے، جنرل پرویز مشرف اس ملک کے حکمران تھے، نواز شریف ایک ڈیل کے ذریعہ سعودی عرب جاچکے تھے لیکن ان کے ساتھی سیف الرحمان اڈیالہ جیل میں رہ گئے تھے۔ایک دن راولپنڈی کی احتساب عدالت میں آصف علی زرداری اور سیف الرحمان کی آگے پیچھے پیشی تھی۔ زرداری صاحب اپنی پیشی کے بعد مجھ سمیت کچھ دیگر اخبار نویسوں کے ساتھ گفتگو کررہے تھے کہ اچانک سیف الرحمان نمودار ہوئے اور آصف علی زرداری کے قدموں میں گر کر معافیاں مانگنے لگے۔ سیف الرحمان نے صاف الفاظ میں کہا کہ میں نے آپ پر جھوٹے مقدمات بنا کر ظلم کیا مجھے جو حکم دیا گیا میں نے وہی کیا تھا مجھے معاف کردیں۔

یہ ایک ناقابل یقین منظر تھا۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں احتساب بیوروکے سربراہ نے زرداری صاحب سے معافی مانگ کر سر اوپر اٹھایا تو ان کی نظر مجھ پر پڑی۔ انہوں نے فوراً اپنے آنسو پونچھے اور زرداری صاحب کو دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوگئے، جو مقدمات سیف الرحمان نے بنائے تھے وہ کئی سال تک چلتے رہے اور کئی سال کے بعد زرداری صاحب کو بے گناہ قرار دیا گیا تو نیب نے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی، اگر آپ میری جگہ ہوتے اور آپ نے سیف الرحمان کو زرداری صاحب کے قدموں میں گر کر معافی مانگتے دیکھا ہوتا تو آپ کس کو سچا سمجھتے؟ نیب کو یا زرداری صاحب کو؟ ستم ظریفی دیکھئے کہ جب نواز شریف سعودی عرب میں جلا وطن تھے اور ان سے پوچھا جاتا تھا کہ آپ نے بینظیر بھٹو اور آصف زرداری پرمقدمات کیوں بنائے تو وہ ساری ذمہ داری سیف الرحمان پر ڈال دیتے تھے۔

2013میں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو یہی سیف الرحمان دوبارہ ان کے اردگرد نظر آنے لگے اور انہی کی کوششوں سے وہ قطری خط بھی تیار ہوا جو پاناما کیس میں نواز شریف کے دفاع کے لئے سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا۔ ماضی کی غلطیوں سے کسی نے بھی سبق نہ سیکھا۔ نواز شریف پہلے بھی سیف الرحمان کی وجہ سے رسوا ہوئے اور بعد میں بھی رسوا ہوئے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بہتر گورننس کے ذریعہ کرپشن کے خاتمے پر توجہ دینے کی بجائے احتساب کے قانون کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی اور صوبائی اسمبلی میں اپنی اکثریت کا بے دریغ استعمال کیا۔ تحریک انصاف بھی کسی سے کم نہیں۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے لاہور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حلقہ این اے 120کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کو ووٹ دے کر سپریم کورٹ کو مضبوط کریں۔ کیا عجیب منطق ہے، سپریم کورٹ کی اصل طاقت پاکستان کا آئین ہے یا تحریک انصاف کا ووٹر؟ اگر این اے120کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کا امیدوار نہیں جیتتا تو کیا یہ سپریم کورٹ کی شکست ہوگی؟

کتنی بدقسمتی ہے، پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کے قول و فعل میں تضاد جمہوری نظام کو کمزو ر کررہا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے سینئر وزراء ایک طرف چھ ستمبر کو یوم دفاع کی تقریب میں آرمی چیف کے ساتھ بیٹھے نظر آتے ہیں، دوسری طرف اسی جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم جعلی ٹوئٹر اکائونٹس کے ذریعہ فوج اور عدلیہ کے خلاف پروپیگنڈے میں بھی مصروف رہتی ہے اور سب جانتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کے سائبر کمانڈوز کی قیادت کس کے پاس ہے؟مسلم لیگ(ن) کی قیادت خود جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل کرکے سعودی عرب چلی جائے تو وہ ٹھیک ہے، ایک خاموش این آر او کے ذریعہ مشرف کو پاکستان سے فرار کرادے تو بڑی اچھی بات ہے لیکن کوئی صحافی مسلم لیگ(ن) کی پالیسی میں موجود ان تضادات کی نشاندہی کردے تووہ جمہوریت کا دشمن قرار پاتا ہے۔ایسے ہی گستاخ اور بدتمیز صحافیوں پر قابو پانے کے لئے مسلم لیگ (ن) کی جمہوریت پسند حکومت نے پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

یہ مجوزہ اتھارٹی ایک آرڈیننس کے ذریعہ قائم کی جائےگی اور اس مجوزہ اتھارٹی کے قیام کا مسودہ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ جنرل ایوب خان کے بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس کو دوبارہ زندہ کیا جارہا ہے اور اس نئے قانون کا مقصد میڈیا کا احتساب نہیں بلکہ طاقت کے ذریعہ اپنے اشاروں پر نچوانا ہے۔ میں نے وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب صاحبہ سے پوچھا کہ یہ قانون کیوں بنایا جارہا ہے؟ انہوں نے اس قانون کے بارے میں لاعلمی ظاہر کی جس کے بعد میری تشویش میں مزید اضافہ ہوگیا۔ مسلم لیگ (ن) کی اس حکومت میں فیصلے کون کرتا ہے؟ کابینہ یا کابینہ سے باہر بیٹھے کچھ طاقتور لوگ؟

آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی ہر بڑی سیاسی جماعت میڈیا کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہتی ہے اگر آپ کسی ایک سیاسی جماعت پر تنقید کردیں تو وہ آپ کو دوسری جماعت کا زرخرید قرار دے دیتی ہے۔ ہمارے اکثر سیاستدان یہ چاہتے ہیں کہ ہم انہیں ان کا ماضی یاد نہ دلایا کریں۔ آج نواز شریف اپنے آپ کو جمہوریت کا سب سے بڑا سپاہی کہتے ہیں جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ1988ء میں جنرل ضیاء الحق نے آپ کی جماعت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو وزارت عظمیٰ سے برطرف کیا تو آپ نے جنرل ضیاء کا ساتھ کیوں دیا تھا؟ آپ کو اس سوال کا جواب نہیں ملے گا، البتہ ناگواری کا تاثر ضرور ملے گا۔ جونیجو کے خلاف جنرل ضیاء کا ساتھ دینے والوں میں چوہدری نثار علی خان بھی سرفہرست تھے۔

1988ءمیں بینظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو چوہدری نثار چپکے چپکے صدر غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ کو ملا کرتے تھے۔ جب بینظیر حکومت کو برطرف کرنے کا فیصلہ ہوا تو صدر اسحاق نے نواز شریف سے پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کے لئے نام مانگا۔ نواز شریف نے دوستی نبھاتے ہوئے چوہدری نثار کا نام دیا لیکن صدر اسحاق نے چوہدری صاحب کا نام مسترد کردیا۔ بعدازاں چوہدری صاحب نے صدر کو غلام حیدر وائیں کا نام دیا تھا۔ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت برطرف کرانے میں بھی چوہدری نثار کا اہم کردار تھا۔ چوہدری صاحب نے صدر فاروق لغاری اور نواز شریف میں رابطے کرائے اور بینظیر حکومت برطرف کرائی۔ دونوں میں اختلافات کا آغاز اس وقت ہوا جب نواز شریف نے 1999ءمیں شہباز شریف اور چوہدری نثار کوبتائے بغیر جنرل پرویز مشرف کو برطرف کردیا۔ 2016ءمیں اسی مشرف کو پاکستان سے باہر بھجوانے میں چوہدری نثار کا اہم کردار تھا۔ نواز شریف اور چوہدری نثار کے اختلافات میں مشرف ایک اہم کردار ہے۔ مشرف کو پاکستان سے فرار کرانے میں پیپلز پارٹی کی خاموش تائید بھی شامل تھی۔

آج کل پیپلز پارٹی مشرف کیخلاف شور مچا کر عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کررہی ہے۔ پیپلز پارٹی ا ور مسلم لیگ(ن) مشرف کا احتساب کرنے میں ناکام رہیں۔ دونوں جماعتوں نے اپنے اقتدار کی خاطر مشرف کو رعایتیں دیں۔ ان کی جگہ تحریک انصاف ہوتی تو عمران خان بھی یہی کچھ کرتے۔ ان تینوں بڑی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ اصولوں کی خاطر ڈٹ جانے کی ہمت نہیں، اقتدار کیلئے سمجھوتے کرنے میں دیر نہیں لگتی۔ زرداری صاحب اور نواز شریف کے ساتھ جو ہوا وہ سب نے دیکھ لیا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ تیسری بڑی جماعت کا انجام کچھ مختلف ہوگا؟

سینئر صحافی حامد میر کا یہ کالم روزنامہ جنگ میں 11 ستمبر 2017 کو شائع ہوا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔