10 اکتوبر ، 2017
دپیکا اور شاہد کپور کی ’پدماوتی‘ کی بھی پہلی جھلک آگئی ہے لہذا آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کچھ کمی ہے کیونکہ دپیکا کے ساتھ رنویر سنگھ کا نام نہیں آیا۔
تو جناب فلم میں رنویر سنگھ موجود ہیں لیکن اس بار ”رام لیلیٰ“اور ”باجی راؤمستانی “ کی طرح دونوں کا کوئی رومانوی جوڑا نہیں ہے، ”پدماوتی“ سے پہلے دونوں فلموں میں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں جان دیتے ہیں لیکن اس بار ایسا کچھ نہیں ہے۔
تین گھنٹے کی ’پدماوتی‘ کا ٹریلر پورے تین منٹ کا ریلیز کیا گیا ہے اور ٹریلر میں میدان جنگ، قلعہ، لڑائی، بیک گراؤنڈ میوزک اور تاثرات پر زیادہ زور دیا گیا ہے، ساتھ ہی ٹریلر میں مکالمے بھی بہت کم ہیں۔
یعنی محبت، نفرت، جیت اور ہار کے ساتھ’ ٹریجک اینڈ‘ اور بہت سارے گانے اور رقص بھی بچاکر رکھے گئے ہیں۔
فلم میں شاہد کپور اور دپیکا کا راجپوت شادی شدہ جوڑا ہے جن کی سلطنت اور زندگی کو ’سلطان علاؤ الدین خلجی‘ کے کردار میں رنویر سنگھ تباہ کردیتا ہے لیکن پدماوتی کو جیت نہیں پاتا۔
ٹریلر میں شروع کے چار سین جاندار نہیں لیکن ٹریلر اصل میں قلعے میں دپیکا کی انٹری سے شروع ہوتا ہے۔
یہ فلم ’باجی راؤ مستانی‘ کے دور سے تین سو سال پرانی فلم ہے جب ہندوستان پر مسلمانوں کی تو حکومت تھی لیکن مغل دور شروع نہیں ہوا تھا۔
فلم میں دپیکا ،شاہد اور رنویر تینوں کے روپ پر بہت محنت کی گئی ہے اور دپیکا کے حسن کو ’رام لیلی‘ اور ’باجی راؤ مستانی‘ سے مختلف دکھانا ایک چیلنج تھا لیکن سنجے لیلا بھنسالی کی محنت اور ریسرچ نے اس فلم میں بھی دپیکا کو خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
رنویر کی انٹری ہٹ کر ہے، شاید یہ وہ سین ہے جب وہ جلال الدین خلجی کا تختہ الٹ کر تاج پہن کرسلطنت پر راج کرتا ہے۔
رنویر سنگھ کا شیشے میں اپنے آپ کو بادشاہ کے روپ میں دیکھنا، اکھاڑے میں بے رحم پہلوان کے طور پر جیت کا اظہار کرنا اور غلاموں سے”خدمت “ لیناسب بغیر مکالموں کے بھی مکمل ہے۔
شاہد کپور کا جنگ کیلئے تیار ہونا دپیکا کا اپنے شوہر کے ساتھ اپنی سلطنت کی ہار دیکھنا اس سب نے فلم دیکھنے کی بے چینی مزید بڑھادی ہے۔
فلم کی کہانی متنازعہ بھی ہے اور تاریخ میں اس داستان کے مختلف زاویے موجود ہیں لیکن اب یکم دسمبر کو فلم دیکھنے کے بعد ہی یہ پتا چلے گا کہ سنجے لیلی بھنسالی نے کس ”ورژن“ سے متاثر ہو کر یہ فلم بنائی ہے۔
فلم کیونکہ سنجے لیلی بھنسالی کی فلم ہے اس لیے سب کو ٹریلر سے پہلے بھی پتا تھا کہ فلم بڑے پردے کی بڑی بجٹ کی بڑی فلم ہوگی۔
سنجے جب بھی فلم بناتے ہیں دل لگا کر پیسہ اور پسینہ بہا کر بناتے ہیں، چاہے فلم کسی کو اچھی لگے یا بری، آئیڈیا صحیح ہو یا غلط، باکس آفس پر ہٹ ہو یا فلاپ سنجے اپنے زاویے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔
اب اس کی مثال فلم”خاموشی“ میں نانا پاٹیکر کو ایسے باپ کے کردار میں کاسٹ کرنا ہو جو نہ بول سکتا تھا نہ سن سکتا تھا۔
”ہم دل دے چکے صنم “ میں جب سب دیکھنے والے ایشوریا کی سلمان خان کی طرف واپسی کیلئے تیار اور بے چین ہوتے ہیں عین اس وقت اجے دیوگن کی جیت دکھا کر کئی دیکھنے والوں کے دل توڑے گئے۔
سلمان اور ایشوریا اُس اینڈ کے بعد ایسے الگ ہوئے کہ آج تک ان کے قصے سب کی زبان پر ہیں۔
اپنے وقت کی سب سے مہنگی فلم ’دیوداس‘ میں چنی بابو کے کردار میں گوندا کو کاسٹ کیا جو اچانک فلم چھوڑ کر چلے گئے بعد میں یہ کردار جیکی شیروف نے کیا۔
رنبیر اور سونم کی پہلی فلم ”سانوریا“ کو اپنے خیالوں کی پریوں کے ایسے دیس میں شوٹ کیا کہ آج تک اس فلم کا مذاق اڑایا جاتا ہے، ’بلیک‘ میں استاد اور شاگرد کا ایک ایسا سین بھی سب کو دکھایا جس پر بہت اعتراض آیا اور شاید اس کی فلم میں ضرورت تھی بھی نہیں۔
فلم ”گزارش“ میں ہریتھک روشن سے اداکاری تو زبردست کروائی لیکن دیکھنے والوں نے اپنے سپر ہیرو کو معذور اپاہج اور کمزور دیکھ کر فلم کو پسند نہیں کیا، ’رام لیلیٰ‘ بنائی تو کرینہ کی چھٹی کر کے دپیکا کو سائن کیا اور پھر دپیکا کی محنت، روپ اور ایکٹنگ ایسی بھائی کہ مسلسل تین فلمیں دپیکا کیلئے بنائیں، ان تینوں فلموں میں دپیکا کا مرکزی اور ٹائٹل رول تھا۔
سنجے لیلیٰ بھنسالی نے ’رام لیلیٰ‘ اور ’باجی راؤ مستانی‘ دونوں میں ایسے گانے بھی استعمال کیے جو اس دور کی عکاسی نہیں کرتے تھے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان گانوں پر اعتراض تو ہوا لیکن یہ دونوں گانے زبردست ہٹ بھی ہوئے ، ان گانوں میں رام لیلیٰ کا آئٹم سانگ جو پریانکا پر پکچرائز ہوا تھا اور دوسرا ”باجی راؤ مستانی“ کا ”ملہاری“ تھا۔
فلم کی کاسٹنگ کی دلچسپ بات یہ ہے کہ شاہد کپور، رنویر سنگھ اور دپیکا پڈوکون فلم فیئر کے بہترین نئے اداکار کے ایوارڈ کے ساتھ بہترین اداکار کا ایوارڈ بھی جیت چکے ہیں۔
شاہد نے 2004 میں فلم ”عشق وشق“ سے بہترین نئے اداکار اور پھر 2015 میں فلم ”حیدر“ سے بہترین اداکار کا ایوارڈ جیتا ہے۔
دپیکا نے 2008 کی فلم ”اوم شانتی اوم“ کیلئے بہترین نئی اداکارہ اور پھر 2014 کی فلم ” را م لیلیٰ“ اور 2016میں فلم ”پیکو“ کے لیے بہترین اداکارہ کا ایوارڈز اپنے نام کیے ہیں۔
رنویر سنگھ نے 2010 میں فلم ”بینڈ باجا بارات“ بجا کر نئے اداکار کی مورتی اٹھائی تو 2016 میں”باجی راؤ مستانی“ کی وجہ سے بہترین اداکار کا ایوارڈ اپنے نام کیا ہے۔
کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی دوستو! کیونکہ تینوں بڑے اسٹارز کی پچھلی میگا بجٹ فلمیں باکس آفس پر ڈبہ ثابت ہوئیں ہیں جس میں شاہد کپور کی ”رنگون“ ، رنویر سنگھ کی ” بے فکرے“ اور دپیکا کی ون ڈیزل کے ساتھ فلم” ٹرپل ایکس“ ہالی وڈ میں بری طرح ناکام ہوئیں ہیں۔
ان تینوں اسٹارز کے ایوارڈز، اداکاری اور باکس آفس اپنی جگہ لیکن جب فلم کے ہدایتکار سنجے لیلی بھنسالی ہوں تو فلم صرف سنجے کی کہلاتی ہے تو اب چاہے اس فلم میں امیتابھ ہو یا پھر نانا،سلمان، ایشوریا ، رنبیر، رنویر یا پھر دپیکا پڈوکون۔
تو اب سب کو انتظار ہے یکم دسمبر کا بڑے بجٹ کی بڑی فلم صرف سینما میں دیکھنے کا۔