Time 30 اکتوبر ، 2017
بلاگ

ناظر جغادری اور میڈیا کا پوسٹ مارٹم

”ناظر جغادری“ کو دیکھتے ہی میں نے ٹی وی بند کیا، موبائل ایک طرف رکھا اور ان کا حملہ سہنے کے لیے ہمہ تن گوش ہوگیا ۔”ناظرجغادری“ کا اصل نام نادر قادری ہے اور کیوں ہے یہ تو آپ جان ہی لیں گے۔ 

یہ صاحب ہماری بلڈنگ کے ساتھ ایک کیفے میں کیشیئر ہیں جہاں اکثر ہم اور ہمارے دوست حالات حاضرہ پر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے رہتے ہیں ۔ ایک دن ہم وہ پھپھولے پھوڑنے ہی والے تھے کہ انھوں نے ایک پھپولا اچک کر ہماری گفتگو میں ”دخل در معقولات “شروع کر دی ۔

صاحب ،وہ دن ہے اور آج کا دن ۔ چونکہ وہ بالکل’’عوامی‘‘ ہیں تو اپنے کام سے ان کا تعلق نہایت کم اور فوکس ٹی وی کے آگے سارا دن برباد کرنے پر زیادہ ہے ۔ کسی بھی اینکر، تجزیہ کار یا چینل کا احوال پوچھ لیجیے، بلا توقف اس کے ماضی، حال، مستقبل پر رننگ کمنٹری فرما کر موضوع اور شخصیات کے بخیے ادھیڑ دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سیاسی حوالوں سے ان کی ماہرانہ گفتگو کی تو بات ہی نہ کریں، کسی کو کرنا بھی نہیں چاہیے۔

اب ایسے آدمی کو دیکھ کر بندہ کیا ٹی وی دیکھے اور کیا موبائل، سو ان کو بند کر دینا ہی بہتر ہے۔

حال احوال کے تبادلے کے بعد انھوں نے مخصوص انداز میں پہلا وار کیا ” یار یہ کیا چل ریا ہے نیوز چینلز پر “۔۔۔”کیا چل رہا ہے؟“ میں نے بظاہر انجان بننے کی اپنی سی کوشش کی( جو نہیں کرنا چاہیے تھی)۔

گویا ہوئے : ارے بھیے ۔۔۔عجب کیفیت ہوجاتی ہے اب تو ٹی وی پر نیوز یا ٹاک شو دیکھ کر ۔۔بھانت بھانت کے چینلز اور بھانت بھانت کی بولیاں ۔۔۔ابھی یہی دیکھو ایک جگہ کوئی جعلی ڈگری والا، اچھے کردار اور ایمانداری پر لیکچر دے رہا ہے تو دوجی جگہ ”رپورٹنگ “کے نام پر گھنٹے بھر جھوٹ کی دکان کھلی رہتی ہے۔

 پاؤ بھر سے لے کر منوں ٹنوں کے حساب سے جھوٹ لیجیے اور بیچئے۔ میں نے پہلو بدلا اور کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ بد قسمتی سے جغادری صاحب کی گفتگو کے بیچ آنیوالا آدھے سیکنڈ کا وقفہ ختم ہوگیا ۔

بولے ”ارے ایک شو میں تو اس رفتار سے لوگوں کو کرپشن کے سرٹیفیکیٹ دے رہے ہیں کہ دو چار مہینے میں پاکستان میں کرپٹ لوگوں کی تعداد پوری آبادی سے زیادہ ہو جاوے گی اور ان لوگوں کے بیچ میں پھنسی بیچاری میزبان لڑکی بیچاری ”کرپشن کی فلم“ پردونوں کے منہ تکے ہے، کر بھی کیا سکتی ہے۔

 پروگرام دھنیا سے شروع ہوتا ہے اگلا بندہ اس کی سانس پوری ہونے سے پہلے پودینے پر الزام لگادیتا ہے پھر ریٹرن میں پہلا والا بابا آکر باقی بچے کریلوں، ککڑیوں اور کھیروں کو رگڑا دینے لگتا ہے ۔

ارے بھیے لاکھوں کروڑوں میں تو بات ہی نہیں کرتے، اربوں سے کھربوں اور صوبے سے ملک کی فروخت والا لیول چل رہا ہوتا ہے۔ پروگرام ختم نہیں ہوتا، گنتی ختم ہو جاتی ہے اور میری ہمت ٹوٹ جاتی ہے، ارے کوئی دیکھ بھی رہا ہے یہ لیلٰی مجنوں کی اسٹوریاں “۔

میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چیونگم آفر کی اور ان کی توجہ بٹنے پر صرف ایک ٹکڑا لگا سکا کہ ”جغادری بھائی ۔۔۔ میرا مطلب ہے قادری بھائی۔۔ اور بھی چینل ہیں۔ آپ ان کا“۔۔۔” ابے ان کا حال بھی سن لو ۔۔۔ایک چینل پر بھی ایک آفت قیامت بھائی بربادی کی بریکنگ پر بریکنگ دے رہا ہوتا ہے، وہ ایک الگ سین ہے۔ اس کو دیکھ کر تو لگتا ہے یا تو اس بندے کے پاس غائب ہوجانے کی طاقت ہے یا اللہ نے اس کو دیوار کے پار دیکھنے اور سات سمندر پار سننے کی طاقت سے نوازا ہے“ ۔

میرا منہ کھلا دیکھ کر بھی ان کو ترس نہیں آیا اور وہ بے تکان بولتے چلے گئے ۔

”دس دیواروں کے اندر ہونے والی کسی بھی ٹاپو ٹاپ میٹنگ میں کیا ہوا، آپ اس جنے سے پوچھ لو ۔۔۔فلاں بندے کے امریکا کے دورے میں اس کے کان میں ٹرمپ نے کیا بولا، آپ کو اس کے شو میں پتہ چل جاوے گا۔۔۔اور تو اور گورنمنٹ تو ہر بریک میں جانے سے پہلے گرا کر جاتا ہے پھر واپس آکر شاید بھول جاوے ہے اور دوبارہ اس کو گرانے میں لگ جاتا ہے۔

اب کر لو بات، ارے میاں اور کچھ نہیں ہے اس ملک میں دیکھنے اور کرنے کو۔کوئی اچھی بات کرلو، لوگوں کے مسئلے حل کرا دو۔ ستر سال سے یہی ڈرامے چل رہے ہیں ، کیا تخت اور تختے کے چکر کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہاں“۔

میں نے یہاں پر گھڑی دیکھنا شروع کی تو جغادری صاحب نے سارا نزلہ مجھ پر گرا دیا ۔”ہاں بھائی پتہ ہے آپ کا وقت بہت قیمتی ہے اور دوسروں کا بالکل فارغ لیکن آپ میڈیا سے ہو تو کم از کم مجھے لگتا ہے کہ آپ سے بات کرنے کا کوئی فائدہ بھی ہے اور شاید آپ اس سب معاملے کو تھوڑا سیدھا بھی کرسکتے ہو“۔

”ہاں “۔۔ میں نے جواب کے لئے تمہید باندھنی چاہی تو وہ وہیں اچک کر مروڑ کرپھینک دی گئی ۔۔۔کہنے لگے ”اور بھی بہت سے چینل اور جنے ہیں جن کی حرکتیں ٹھیک نہیں لیکن استاد، ٹھیک آدمی نہیں ہو آپ۔۔۔آپ بھی یا تو کھائے پئیے بیٹھے ہو یاآپ کا بھی کوئی کنکشن لگ گیا ہے۔ ہاں بھائی آپ جیسے صاحب لوگوں کو کیا پڑی ہے پبلک روزانہ کیا کیا ٹارچر سہتی ہے۔ وقت پر بھاری سیلری آجائے اور مستیاں چلتی رہیں قوم جائے ۔۔۔“۔

اس کے بعد میڈیا کے لئے ایک ناقابل اشاعت اور غیر پارلیمانی لفظ استعمال کرکے ناظرجفادری نے اپنی راہ لی اور نری ڈھٹائی سے اپنا ٹی وی آن کرتے ہوئے میں یہ سوچنے لگا کہ جو بھی ہو صرف چند چینلز کی دو تین گھنٹوں کی سمری کچھ جملوں میں سن کر میرا یہ حال ہوا ہے، جو لوگ چھ چھ آٹھ آٹھ گھنٹے یہ سب روزانہ سنتے ہیں ان کی سوچ اور خیالات کیا ہوتے ہوں گے۔۔آپ کا کیا خیال ہے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔