24 نومبر ، 2017
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وزیر داخلہ احسن اقبال کو اس بات کی وضاحت کے لیے شوکاز نوٹس جاری کردیا کہ انہوں نے کس قانون کے تحت انتظامیہ کو عدالتی احکامات پر عملدرآمد سے روکا۔
عدالت عالیہ نے انتظامیہ کو ممکنہ آپریشن کے دوران 'آتشیں ہتھیار' استعمال نہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے تین دن میں دھرنے کو فیض آباد سے پریڈ گراؤنڈ منتقل کرنے کا بھی حکم دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے گزشتہ سماعت پر دھرنا ختم کرانے کے حوالے سے حکومت کو 2 روز کی مہلت دی تھی اور جمعرات (23 نومبر) کو حکومت نے دھرنا ختم کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے عدالت کو آگاہ کرنا تھا، تاہم گذشتہ روز جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طبیعت ناساز ہونے کے باعث سماعت نہیں ہوسکی تھی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیر صدیقی نے آج فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کی اور چیف کمشنر سے استفسار کیا کہ بتائیں آپ کو عدالتی حکم پر عملدرآمد سے کس نے روکا؟
چیف کمشنر اسلام آباد نے عدالت عالیہ کو آگاہ کیا کہ 'ہمیں حکومت نے روکا ہوا ہے'۔
چیف کمشنر کا مزید کہنا تھا کہ وزیر داخلہ نے عدالت میں بھی کہا کہ انہوں نے انتظامیہ کو روکا تاکہ مذاکرات جاری رہ سکیں۔
دھرنا ختم کرانے میں ناکامی پر عدالت عالیہ نے حکومت اور انتطامیہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'ڈبل گیم کھیلا جارہا ہے، ایک طرف ججز کو گالیاں دی جارہی ہیں، دوسری طرف تاثر دیتے ہیں کہ فوج کچھ نہیں کرنے دیتی، یہ عدالت کے حکم کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے'۔
معزز جج نے ریمارکس دیئے کہ 'سمجھ سےبالاتر ہےکہ وفاقی وزیر بلکہ وزیراعظم بھی عدالتی حکم کے خلاف کیسے جاسکتا ہے'۔
عدالت عالیہ نے حکم دیا کہ وزیر داخلہ پیش ہو کر وضاحت کریں کہ کس قانون کے تحت انتظامیہ کو عدالتی احکامات پر عمل درآمد سے روکا گیا؟
سیکریٹری داخلہ نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ 'اگر ہم ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کریں گے تو بہت خون بہے گا، کچھ چیزیں یہاں نہیں بتا سکتا، چیمبر میں تحریری طور پر بتا دوں گا'۔
سیکریٹری داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ 'جہاں ضرورت پیش آئی، ریاست پوری طاقت کا استعمال کرے گی، ہم ریاست کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے سب کچھ کر رہے ہیں'۔
جس پر جسٹس شوکت عزیر نے ریمارکس دیئے کہ 'ابھی تک تو کچھ بھی نہیں ہو رہا'۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ پہلے 29 نومبر کو رپورٹ مانگی تھی، ساتھ ہی انہوں نے سیکریٹری داخلہ کو حکم دیا کہ اب 27 نومبر کو راجہ ظفرالحق کی رپورٹ پیش کریں۔
ساتھ ہی عدالت نے ریمارکس دیئے کہ 'حساس اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ یہ تاثر ختم کریں کہ دھرنے کے پیچھے ایجنسیاں ہیں'۔
سماعت کے بعد عدالت نے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سیکٹر کمانڈر کو بھی آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔
بعدازاں کیس کی سماعت 27 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت 'تحریک لبیک یارسول اللہ' کا دھرنا 19 ویں روز سے جاری ہے، جس میں وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
حکومت اور مذہبی جماعت کے درمیان دھرنا ختم کرنے کے حوالے سے ہونے والے تمام اجلاس بے سود رہے اور کوئی فریق اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، جبکہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
مذہبی و سیاسی جماعت نے یہ دھرنا ایک ایسے وقت میں دیا جب رواں برس اکتوبر میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم منظور کی تھیں، جس میں 'ختم نبوت' سے متعلق شق بھی شامل تھی، لیکن بعد میں حکومت نے فوری طور پر اسے 'دفتری غلطی' قرار دے کر دوسری ترمیم منظور کرلی تھی۔
تاہم مذہبی جماعت نے اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔