27 نومبر ، 2017
اسلام آباد: راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ اگرچہ غیرفیصلہ کن ہےکہ آیا انتخابی قوانین میں قابل اعتراض ترامیم سازش تھی یا غلطی تاہم اس میں سفارش کی گئی ہے کہ ذمہ دار کے خلاف لازمی طور پر اقدام کیا جائے۔
رپورٹ میں مبہم انداز میں دو وزرا کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن صاف صاف انداز میں یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا گیا کہ آیا وہ ذمہ دار بھی تھے۔
دی نیوز کے پاس رپورٹ کی نقل موجود ہے جو ذیل میں پیش کی جارہی ہے تاہم اس میں دو وزرا کے نام شامل نہیں کیے گئے ہیں۔
رپورٹ، آپ نے کمال مہربانی سے ایک تین رکنی کمیٹی جو مشاہد اللہ، احسن اقبال اور مجھ پر مشتمل تھی، ان حالات کی تفتیش کے لئے قائم کی تھی جس کے نتیجے میں نامزدگی کے لئے الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت حلف نامے سے منسلک ختم نبوت کے حوالے سے اعلامیے میں ترمیم ہوئی تھی۔
میں نے کمیٹی کے دو ارکان سے رابطہ کیا تھا لیکن احسن اقبال ضلع ناروال میں اپنے حلقے میں گئے ہوئے تھے اور انہوں نے کہا کہ وہ ایک روز کے بعد واپس آئیں گے۔ اس دوران میں نے اصل بل حاصل کیا، تاکہ یہ جان سکوں کہ مختلف جماعتوں کے مقررین کے اصل الفاظ اور بل میں تجویز کی گئی ترامیم کیا تھیں، یہ بل ترمیم شدہ شکل کے ساتھ سینیٹ کی حرف بہ حرف کاروائی پر مشتمل تھا۔ سینیٹ کی قانون اور انصاف کی قائمہ کمیٹی کی کاروائی کے دوران کئی ترامیم کی تجویز پیش کی گئی تھی لیکن کسی کا بھی تعلق امیدوار کے عقیدے اور ختم نبوت کے حوالے سے حلفیہ اقرار نامے سے نہیں تھا۔
جب مجلس قائمہ کی جانب سے بل ایوان کو بھیجا گیا تب جے یو آئی کے سینیٹر حافظ حمدا للہ نے حلفیہ اقرار کی زبان میں تبدیلی پر اعتراض کیا اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ اصل اقرار نامے کو برقرار رکھا جانا چاہیےجس میں حلفیہ اقرار نامے کی بات کی گئی ہے، اس پر میں اٹھا اور میں نے ان کی حمایت کی۔ وزیر قانون نے بھی کہا کہ وہ حافظ حمداللہ کی ترمیم کے مخالف نہیں ہیں لیکن نہ معلوم کس طرح انہوں نے اسی وقت ترمیم کو منظور نہ کیا۔
میں نے حافظ حمداللہ کو قائل کیا کہ پاکستان مسلم لیگ ن ان کی ترمیم کی حمایت کرتی ہے جس کے لئے انہوں نے شکریہ ادا کیا اور ایوان میں موجود رہے اور سیکشن 203 پر رائے شماری کے وقت ہماری حمایت کی جس کا تعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود آپ کے پارٹی کا صدر ہونے کے انتخاب کے حوالے سے تھا۔
اللہ تعالی کی مہربانی سے ہم ایک ووٹ سے جیت گئے اور یہ بہت بڑی تسکین تھی۔ آئینی طریقہ کار کے مطابق یہ بل دوبارہ قومی اسمبلی بھیجا گیا کیونکہ قومی اسمبلی کی جانب سے سینٹ کو بھیجے گئے بل کے اصل مسودے میں ترامیم تھیں۔ اس وقت جب بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جارہا تھا، تمام جماعتوں کے ارکان کو یہ اندازہ ہوا کہ انہوں نے غلطی کر دی ہے اور یہ کہ اس کو دور کیا جانا ہے لیکن سیکشن 203 پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شور شرابے کی وجہ سے بل کو جو ترمیم شدہ تھا، منظور کر لیا گیا اور اسے حتمی منظوری کے لئے سینیٹ کو بھیج دیا گیا۔
سینیٹ میں ہر جانب سے ارکان کو جمع کرنے کے لئے رسہ کشی اور زبردست گشیدگی تھی اور الحمدُللہ ختم نبوت کے عقیدے کے بارے میں ارکان کے حلف نامے سے متعلق ترامیم سینیٹ میں متفقہ طور پر منظور ہوگئیں لیکن سیکشن 203 کے بارے میں مخالفت تھی۔ بل کو صدر نے منظور کرلیا اور وہ قانون بن گیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ ایک بہت ہی حساس معاملہ ہے، ہم تفتیش کرنا چاہتے تھے کہ کس طرح اور کیوں اصل حلف نامہ تبدیل ہوا تھا۔ اس کے لئے ہم نے (نام حذف کردیا گیا) مشورہ کیا، دو یا تین مرتبہ۔............. (نام حذف کردیا گیا) ان میں سے ایک تھے جنہوں نے کمیٹی کی سطح پر مسودہ تیار کیا تھا۔ ...........(نام حذف کردیا گیا) تین یا چار اجلاس کیے گئے جس کے دوران انہوں نے تسلیم کیا کہ بنیادی طور پر یہ ان کی پہلی ذمہ داری تھی کہ وہ یہ دیکھتے کہ مسودے میں کوئی متنازع بات شامل نہ ہو لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی قانونی مہارت، تجربے اور زبان پر عبور کے باوجود اپنا فرض ادا نہ کر سکے۔
اس کمیٹی کی تعیناتی کے اعلان کے ساتھ ہی شدید ردعمل، جس میں بتدریج اضافہ ہوا اور جو بڑھ رہا تھا، اب کم ہوگیا ہے لیکن یہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔ آج میں نے اخبار میں مولانا فضل الرحمن کا بیان پڑھا ہے کہ بنیادی طور پر ہم حلف نامے پر بحث کے دوران اپنی ذمہ داری ادا نہ کرنے کے اجتماعی طور پر ذمہ دار تھے۔
ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ عوام ان لوگوں کے خلاف ایکشن کی توقع کر رہے ہیں جنہوں نے اقرار نامے کو تبدیل کیا اور اس مسئلےکی وجہ بنے۔ مذکورہ بالا کی روشنی میں ہم تجویز پیش کرتے ہیں کہ ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لازمی طور پر لیا جانا چاہیے لیکن ہم اسے آپ کی بصیرت اور معقول فیصلے پر چھوڑتے ہیں۔
دستخط،
راجہ محمد ظفرالحق، مشاہد اللہ خان۔
یہ خبر 27 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی۔