27 نومبر ، 2017
پرتگالی فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو نے حال ہی میں چوتھی بار یوئیفا پلیئر آف دی ایئر کا اعزاز اپنے نام کیا ہے۔
کرسٹیانو رونالڈو کا پورا نام کرسٹیانو رونالڈ ڈوس سینٹوس ایورو ہے اور وہ 5 فروری 1985 میں پرتگال کےجنوب مغربی شہر فنچل، میڈیرا میں پیدا ہوئے جب کہ انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز 1992 میں کیا۔
انہوں نے 2002 میں پرتگالی فٹبال کلب اسپورٹنگ سی پی بی سے باقاعدہ طور پر فٹبال کھیلنے کا آغاز کیا، اب رونالڈو پرتگال فٹبال ٹیم کے کپتان بھی ہیں اور 2009 سے ہسپانوی کلب ریال میڈریڈ کی بھی نمائندگی کررہے ہیں۔
وہ ریال میڈریڈ کو 13 ٹرافیاں جتواچکے ہیں جن میں دو بار لالیگا، دو بار کوپا ڈیل رے، دو بار سپر کوپا ڈی اسپین، تین بار یوئیفا چیمپئنز لیگ ٹائٹلز اور دو بار یوئیفا سپر کپ شامل ہیں تاہم قومی سطح پر وہ ٹیم کو کوئی ورلڈ ٹائٹل نہیں جتوا سکے ہیں۔
کرسٹیانو رونالڈو کو شہرت، عزت و دولت، کامیابی اور کامرانی کسی طشتری پر رکھ نہیں ملی اور نہ ہی وہ کوئی سونے کا چمچہ لے کر دنیا میں آئے تھے بلکہ انہوں نے اتنی ساری کامیابی و کامرانی سخت محنت سے حاصل کی ہے۔
دنیائے فٹبال کے معروف کھلاڑی کرسٹیانو رونالڈو نے اپنی خودنوشت میں کئی رازوں سے پردہ اٹھایا جو کہ پیش نظر ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ 7 سال کی عمر سے ہی میری یادداشت بہت تیز ہے اسی لیے ابھی تک ماضی کو اچھی طرح یاد کرسکتا ہوں کیونکہ مجھے وہ ان دنوں کی یادیں پرجوش کر دیتی ہیں۔
میڈیرا کی سٹرکوں پر کھیلنے سے قبل ہی میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ فٹبال کھیلنا شروع کردیا تھا لیکن ہمارے پاس گول کرنے کے لیے گول پوسٹ، جال اور کچھ بھی نہیں ہوتا تھا اور جب بھی سڑکوں پرگاڑی گزرتی تو ہمیں کھیل کو روکنا پڑتا تھا۔
میرے والد پرتگالی فٹبال کلب سی ایف اینڈوروینہا کے کٹ مین تھے، وہ یوتھ ٹیم میں کھیلنے کے لیے میری حوصلہ افزائی کرتے رہتےتھے اور میں جانتا تھا کہ اگر میں ان کی ٹیم کےلیے کھیلوں تو یہ ان کے لیے بہت ہی قابلِ فخر بات ہوگی اس لئے میں نے 1992 سے 1995 تک سی ایف اینڈوروینہا کی یوتھ ٹیم کا حصہ بنا۔
میں ہر میچ سے قبل میدان کے باہر والد کواکیلے کھڑا ہوا دیکھتا تھا لیکن اس دن مجھے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آیا جب میں میچ سے قبل وارم اپ ہورہا تھا تو میں نے اسٹیڈیم کی طرف ایک نظر دوڑائی تودیکھا کہ میری والدہ اور بہنیں میچ دیکھنے کےلئے آئی ہوئی ہیں۔
مگرمجھے وہ لوگ مداحوں کی طرح پرجوش انداز میں تالیاں بجاتے ، چیختے چلاتے نظرنہیں آئے، وہ لوگ بس میری طرف دیکھ کر ہاتھ ہلاتے رہےکیونکہ وہ پہلی بار فٹبال اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے آئے تھے اور یہی چیز میرے لئے بہت اہم تھی، وہ لمحہ میرے لیے بہت قیمتی تھا ،میں اس لمحے کو کبھی نہیں بھلا سکتا۔
میڈیرا میں ہم نے بہت ہی مشکل دن گزارے، اس کے باوجود میں نے ہر حال میں کھیل جاری رکھا اور بھائی یا کزن کے پرانے جوتے پہن کر فٹبال کھیلتا رہا۔
میں اکثر اپنے ماضی کی یادوں کے دریچوں پر نظر ڈالتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ غربت و مشکلات کے دن جلد ہی ختم ہوگئے۔ فٹبال نے مجھے سب کچھ دیا لیکن فٹبال نے مجھے اپنے گھر والوں سے بہت دور بھی کیا جس کے لئے میں پہلے سے ہی تیار تھا۔
میرا بیٹا کرسٹیانو جونیئر ابھی صرف 7 برس کا ہے اور میں اس وقت اپنی زندگی کے بارے میں خودنوشت لکھ رہا ہوں، اب میں یہ سوچتا ہوں کہ میں کیسے چار سال بعد اپنے بیٹے کو لندن یا پیرس اکیڈمی بھیجوں گا۔
مجھے یہ سب کچھ ناممکن سا لگتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ میرے والدین کو بھی مجھے خود سے دورکرتے وقت بہت تکلیف محسوس ہوئی ہوگی لیکن خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے میرے لئے ایک نادر موقع تھا، اس لئے میرے والدین نے مجھے اکیڈمی بھیجا۔
مجھےاچھی طرح یاد ہے کہ جب میں 15سال کاتھا تو میں نے ٹریننگ کے دوران اپنے کچھ ساتھیوں سےکہا تھا کہ ’’ میں ایک دن دنیا کا بہترین فٹبالر بنوں گا۔‘‘ وہ لوگ میری باتیں سن کر میرا مذاق اڑاتےتھےکیونکہ میں تو اس وقت لزبن اسپورٹنگ ٹیم کے پہلے اسکواڈ کا حصہ بھی نہیں تھا لیکن مجھے خود پر یقین تھا کہ ضرور دنیا کا بہترین فٹبالر بنوں گا۔
17سال کی عمر میں پروفیشنل فٹبال کھیلنا شروع کی تو میری والدہ اکثر اہم ٹونارمنٹس کے دوران میچ دیکھتے دیکھتے اعصابی تناؤ کا شکار ہوجاتی تھیں اور وہ بشمکل ہی میرا کوئی میچ مکمل دیکھ پاتیں تھیں۔
میرے لئے مانچسٹر یونائٹیڈ کا کھلاڑی بننابہت ہی قابلِ فخر بات تھی لیکن میرے خیال میں اس سے کہیں زیادہ میرے خاندان کے لیے یہ قابل فخر لمحہ تھا۔
مجھے یاد ہےکہ جب میں نے مانچسٹر میں پہلی بار چیمپئنز لیگ جیتا تھا تو میں کتنا خوش تھا اور میں اپنی خوشی کو لفظوں میں بیان کرنے نہیں کرسکتا۔
اسی طرح جب مجھے پہلی بار دنیا کا بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ، بیلن ڈی اور کے ایوارڈ سے نوزا گیا تو اس وقت میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا لیکن میرےخواب نے ہمیشہ مجھےبہتر سے بہتر پرفارمنس دینے کی طرف راغب کیا۔
میں ہر دن کے ساتھ نئے چیلنج کا سامنا کرنا چاہتا تھا اور میں ریال میڈریڈ کےلیے ٹرافیاں جیتنا، عالمی ریکارڈز توڑنا اور کلب کا لیجنڈ کھلاڑی بننا چاہتا تھا۔
میڈریڈ کی جانب سے 400 میچز جیتنے کے باوجود اب بھی فتوحات حاصل کرنامیرا اصل مقصد ہے اور میرے خیال میں صرف جیتنے کے لیے ہی پیدا ہوا ہوں لیکن جیت کے بعد خوشی کے جذبات اب مختلف ہوگئے ہیں۔
اب میری زندگی کے نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے اور میں نے اپنے کرشماتی جوتوں (بوٹ) سے دنیا میں تاریخ رقم کی ہے۔
آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ میری زندگی کا مقصد ہےکہ میں ریال میڈریڈ کے لئے ہمیشہ سے عالمی ریکارڈ قائم کروں اور میں چاہتا ہوں جتنا ممکن ہو میں زیادہ سے زیادہ ٹائٹلز جیتوں ۔
میں نے میڈریڈ میں چیمپئنزلیگ ٹرافی جیتنے کے بعد اپنے بیٹے کے ساتھ گراؤنڈ میں چکر لگاتے ہوئے سوچا تھا کہ جب میں 95 برس کا ہوجاؤں گا تو اپنے پوتے پوتیوں کو کارناموں کے بارے میں بتاؤں گا اور میں پر امید ہوں کہ ہم دوبارہ چیمپئنز لیگ ٹرافی جیتنے میں کامیاب ہوں گے۔