شاہ زیب قتل کیس میں دیت طے ہونے کی تفصیلات سامنے آگئیں

کراچی: شاہ زیب قتل کیس میں دیت طے ہونے کی تفصیلات سامنے آگئیں جن کے مطابق مقتول کے اہل خانہ کو 27 کروڑ روپے دیے گئے ہیں۔

ذرائع نے جیو نیوز کو بتایا کہ دیت میں شاہزیب کے گھر والوں کو ڈیفینس میں ایک 5 سو گز کا بنگلہ بھی دیا گیا جبکہ شاہزیب کے والد کو آسٹریلیا میں فلیٹ بھی دیا گیا۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ معاہدہ شاہزیب کے والد ڈی ایس پی اورنگزیب کے ساتھ کیا گیا۔

شاہ رخ جتوئی کو طبی بنیادوں پر جناح اسپتال منتقل کیا گیا تھا اور وہ ہسپتال میں دو ماہ سے موجود ہیں۔

خیال رہے کہ کیس میں اس وقت کے چیف جسٹس کے حکم پر انسداد دہشت گردی کی دفعات کو شامل کیا گیا تھا جن کے تحت دیت ممکن نہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہ رخ جتوئی جیل سے چار سے پانچ روز تک غائب ہو گیا تھا جب کہ اعلیٰ حکام کو اس بات کا پتہ چلا تو پھر اسے واپس جیل لایا گیا۔

ذرائع یہ بھی کہتے ہیں وہ جناح اسپتال میں موجود ہے جہاں اسے تمام طرح کی سہولیات دستیاب ہیں، وہ اکثر رات اپنے گھر چلا جاتا ہے اور صبح واپس اسپتال آ جاتا ہے۔

اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کا مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو پھانسی دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا تھا۔

ہائیکورٹ میں مقدمے کی سماعت کے دوران ملزمان کے وکلا کی جانب سے صلح کی درخواست عدالت میں جمع کرائی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ دونوں فریقین کے درمیان صلح ہوچکی ہے۔

اس پر سندھ ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج سے انکوائری رپورٹ طلب کی جس میں بتایا گیا کہ ذاتی عناد پر جھگڑا ہوا جس پر شاہ زیب کو قتل کیا گیا۔

شاہزیب قتل کیس: کب کیا ہوا؟

درخشاں تھانے کی حدود میں 20 سالہ نوجوان شاہ زیب بہن کی شادی سے گھر واپسی پر ڈیفنس کے علاقے میں قتل کیا گیا تھا۔

قتل کے الزام میں ملزمان سراج تالپور، غلام مرتضیٰ لاشاری اور سجاد تالپور گرفتار ہوئے لیکن مقتول شاہ زیب کے والدین انصاف کی امید لئے میڈیا کے سامنے آگئے اور مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کی گرفتاری کا مطالبہ کرڈالا۔

ان کا کہنا تھا کہ مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو بااثرافراد کی سرپرستی میں دبئی فرار کرادیا گیا ہے۔

مقتول کے والدین کا اس وقت یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بااثر قاتل گرفتار نہ ہوا تو چیف جسٹس سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا۔

سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس حرکت میں آئی اور ملزم شاہ رخ جتوئی نے خود کو دبئی میں پولیس کے حوالے کردیا۔ملزمان کے خلاف7 مارچ 2013 کو فرد جرم عائد کی گئی۔

ملزم شاہ رخ جتوئی کو نابالغ قرار دیکر سزائے موت سے بچانے کی کوشش کی گئی لیکن میڈیکل بورڈ نے شاہ رخ جتوئی کو بالغ قرار دے دیا۔

مقتول کے والد نے کیس کو خراب کرنے کا الزام لگایا اور ایک بار پھر کہاکہ وہ کسی دباؤ میں نہیں آنے والے۔

7جون 2013 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج غلام مصطفیٰ میمن نے3 ماہ تک سماعت کے بعد فیصلہ سنادیا۔

عدالت نے قتل کا جرم ثابت ہونے پر دو مرکزی ملزمان شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو سزائے موت اور پانچ، پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی جبکہ شریک ملزمان سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو بھی مجرم قرار دیتے ہوئے عمرقید اور پانچ، پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا ملی۔

اس سزا کے بعد مقتول شاہ زیب کی والدہ نے عدلیہ اور میڈیا کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ملزمان کی سزاؤں پر اطمینان ہے، مجرموں سے ڈیل نہیں ہوگی لیکن ملزمان کو اللہ کے نام پر معاف کیا جاسکتا ہے۔

سزا کے خلاف ملزمان نے سندھ ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی لیکن بالاخر مقتول کے اہل خانہ نے ملزمان کو اللہ کے نام پر معاف کرنے سے متعلق حلف نامے سندھ ہائیکورٹ میں داخل کردیئے۔

مزید خبریں :