14 دسمبر ، 2017
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں قبائلی عمائدین پر مشتمل گرینڈ جرکے نے فاٹا کے خیبرپختونخوا میں ممکنہ انضمام کو مسترد کرتے ہوئے علیحدہ صوبے کا مطالبہ کردیا۔
خیبرایجنسی جمرود بازار کے قریب فاٹا کے500 سے زائد عمائدین کا جرگہ ہوا۔ جرگے میں فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے کی تحریک کی پرزور مذمت کی گئی۔
جرگے سے سابق وفاقی وزیر ملک وارث خان، ملک خان مرجان، کرنل ریٹائرڈ انعام اللہ سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا۔
مقررین کا کہنا تها کہ قبائل کی رائے کے بغیرفاٹا کی آئینی حیثیت میں رد و بدل علاقے میں انتشار اور بدامنی کا باعث بنےگا۔
قبائل کی اکثریت فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کے حق میں ہے۔ مقررین کا کہنا تها کہ موجودہ حالات میں فاٹا میں پولیس تهانوں کے قیام کی بجائے لاکهوں متاثرین کی آباد کاری اور تعلیمی اداروں کی تعمیر پر توجہ دی جائے۔
مقررین نےکہا کہ 23 دسمبر کو اسلام آباد میں قبائلی عوام اس حوالے سے دھرنا بھی دیں گے اور اگر فاٹا کے خیبر پختونخوا سے انضمام کی کوششیں ترک نہ کی گئی تو عوام وہاں سے نقل مکانی کریں گے۔
علاوہ ازیں جرگے کے شرکاء نے جمرود بازار سے تاریخی بابِ خیبر تک مارچ بھی کیا۔
اپوزیشن نے فاٹا اصلاحات کا بل قومی اسمبلی میں پیش نہ ہونے پر ایوان سے واک آؤٹ کردیا جبکہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ یہ پارلیمنٹ پاکستان کی ہے کسی گورے انگریز یا کالے کی نہیں، یہ لوگوں کا مینڈیٹ لے کر آئی ہے، ہم پر کوئی گوروں کا ایکٹ لاگو نہیں ہوتا، ہم نے اپنا قانون بنایا اور اس کو لاگو کیا۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا ہم چاہتے ہیں کہ فاٹا کے لوگوں کو قانون و آئین کا حصہ دیں، ہم ان کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں، ہم انگریز کے کسی بوسیدہ قانون کو ماننے کو تیار نہیں، آئین کے اندر ہوتے ہوئے پارلیمنٹ کی اتھارٹی ختم نہیں ہونے دیں گے، یہی فیصلہ ہے اس سے سب متفق ہوں گے، فاٹا کے 95 فیصد لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ انہیں پاکستان میں جانا ہے۔
حکومت کی جانب سے وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کے معاملے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، اعلیٰ عدلیہ کی حدود کا دائرہ وسیع کرنے کا معاملہ بھی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ فاٹا معاملے پر بل لانا ضروری تھا یہ بل پیر کو پیش کیا جانا تھا لیکن یہ ہمارا عزم ہے کہ یہ بل آئے گا وقت کے تعین کا معاملہ سامنے آیا۔
گزشتہ روز پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باوجوہ نے کہا تھا کہ فوج فاٹا کی قومی دھارے میں شمولیت کی مکمل حمایت کرتی ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وفاقی منتظم شدہ قبائلی علاقہ جات (فاٹا) سے آنے والے وفود کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پاک فوج قبائلی بھائیوں کی خواہشات کے مطابق فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے عمل کی مکمل حمایت کرتی ہے۔
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے بھی الٹی میٹم دیا ہے کہ اگر حکومت نے فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام کا عمل شروع نہ کیا تو 31 دسمبر کو اسلام آباد میں دھرنا دیا جائے گا۔
جماعت اسلامی فاٹا کے معاملے پر لانگ مارچ بھی کررہی ہے اور اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ فاٹا کے لوگ اپنے حقوق چاہتے ہیں، فاٹا کے لوگ خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد ایف سی آر کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا کے حوالے سے ہونے والے لانگ مارچ کے شرکاء کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ پاکستان سے محبت اور ایف سی آر، ناانصافی اور ظلم کے نظام سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائلی لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بھی تعلیم یافتہ ہوں۔
جماعت اسلامی کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور قومی وطن پارٹی بھی فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے حق میں ہیں۔
خیال رہے کہ رواں برس 2 مارچ کو کابینہ کے اجلاس میں فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے حوالے سے پیش کی جانے والی سفارشات کی منظوری دی گئی تھی تاہم اب تک قومی اسمبلی میں فاٹا اصلاحات بل پیش نہیں کیا گیا ہے۔
ایک بار اگر فاٹا خیبر پختونخوا میں ضم ہوگیا تو قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) میں صوبے کا حصہ بڑھ جائے گا کیوں کہ این ایف سی میں 3 فیصد حصہ فاٹا ریجن کے لیے مختص کیا جائے گا۔
خیبرپختونخوا اسمبلی نے 14 دسمبر 2016 کو فاٹا کے کے پی کے میں انضمام کے حوالے سے ایک قرارداد منظور کی تھی جس کے تحت کے پی حکومت انضمام کے بعد فاٹا میں سڑکیں، مواصلات، پاور لائنز، واٹر سپلائی، تعلیم و صحت اور دیگر انفرااسٹرکچر کی از سر نو تعمیر کرے گی۔
خیال رہے کہ فاٹا میں برطانوی دور کا قانون نافذ رہے جسے ایف سی آر کہا جاتا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہتے ہیں کہ ایف سی آر ایکٹ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے جبکہ یہ 1973 کے آئین سے بھی متصادم ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی صورت میں آرٹیکل 247 اور دیگر متعلقہ قوانین میں ترامیم کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار قبائلی علاقوں تک وسیع ہوجائے گا۔
اس کے بعد قبائلی علاقوں میں موجود شہری بھی پاکستان کے دیگر شہریوں کی طرح اپنے بنیادی حقوق قانونی طور پر حاصل کرسکیں گے۔