31 دسمبر ، 2017
کراچی پولیس چیف مشتاق مہر کا کہنا ہے کہ کراچی میں چھری مار وارداتوں کے پیچھے کوئی ایک شخص نہیں بلکہ تین سے چار لوگ تھے اور اس کے پس پردہ سیاسی ایجنڈا تھا۔
جیو نیوز کو خصوصی انٹرویو کے دوران مشتاق مہر کا کہنا تھا کہ کراچی میں چھری مار واردات کا معاملہ حل ہوگیا اور ملزمان کی نشاندہی کرلی گئی ہے تاہم انہیں گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
مشتاق مہر کا کہنا تھا کہ گلستان جوہر اور گلشن اقبال میں چھری سے خواتین کو نشانہ بنانے والا ایک شخص نہیں بلکہ اس میں تین سے چار لوگ ملوث تھے اور ان وارداتوں کو رکوانے میں پولیس کا اہم کردار ہے جب کہ اس کے پس پردہ سیاسی ایجنڈا تھا۔
خیال رہے کہ ستمبر اور اکتوبر کے مہینے میں کراچی کے علاقے گلستان جوہر اور گلشن اقبال میں خواتین کو چھری کے وار سے زخمی کرنے کے واقعات پیش آئے۔
چھری یا تیز دھار آلے سے 16 خواتین کو نشانہ بنایا گیا جس سے نہ صرف شہر بھر ملک بھر میں خوف و ہراس پھیلا جب کہ پولیس نے گوجرانوالہ سے محمد وسیم نامی شخص کو گرفتار کیا تاہم وہ ان وارداتوں سے لاعلم معلوم ہوا۔
خواتین کو چھری کے وار سے زخمی کرنے کی وارداتیں پولیس کی کمائی کا ذریعہ بھی بن گئی تھیں جہاں جوڈیشل مجسٹریٹ ساؤتھ نے اینٹی وائلٹ کرائم سیل ( اے وی سی سی) گارڈن میں چھاپہ مار کر ایسے افراد کو بازیاب کرایا جن سے پولیس نے رہائی کے لئے بھاری قیمت طلب کی تھی۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نے جمال شاہ نامی شخص کی درخواست پر کارروائی کی، جس کے دو بیٹوں کو پولیس نے خواتین کو چھرا مارنے کے الزام میں کورنگی سے حراست میں لیا تھا جب کہ جمال شاہ نے بھی اسی الزام میں پولیس کو 5 لاکھ روپے دے کر اپنی جان چھڑائی تھی۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نے اکتوبر کے دوسرے ہفتے اینٹی وائلٹ کرائم سیل گارڈن میں کارروائی کی تو 2 کے بجائے 7 افراد کو بازیاب کرایا گیا۔واقعے کے بعد ڈی ایس پی اور 2 انسپکٹروں کوگرفتار کرکے تھانے منتقل کردیا گیا اور ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے۔