06 جنوری ، 2018
لاہور: چیف جسٹس پاکستان کے چیمبر کا پانی بھی آلودہ نکل آیا جس پر معزز جج نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ْ
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان نے مفاد عامہ کے تحت دائر درخواستوں کی سماعت کی۔
صاف پانی کیس کی فراہمی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ڈائریکٹر پی سی ایس آر لیبارٹریز نے عدالت میں رپورٹ پیش کی جس کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کےچیمبر سے لیا گیا پانی بھی آلودہ نکلا۔
رپورٹ پر چیف جسٹس پاکستان چیف سیکریٹری پنجاب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آرسینک زہر ہےاور ہمیں زہر پلایا جارہا ہے، آپ کو پتا ہے، بڑے شہروں کا آلودہ پانی کن دریاؤں اور ندیوں میں جارہا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتایا جائے ،پانی کےنام پر اربوں روپوں کہاں خرچ کیےگئے؟
معزز جج نے کہا کہ جو کام حکومت کےکرنے کے تھے، وہ نجی کمپنیوں کے سپرد کردیئے ہیں، حکومت نےآج تک اپنی ترجیحات کا تعین کیوں نہیں کیا، یہ بتائیں، پچھلے 10 سال میں کتنے نئے اسپتال بنائے گئے؟
اس از خود نوٹس پر اورنج لائن ٹرین کو بند کر دیں گے، چیف جسٹس
چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ اورنج لائن ٹرین منصوبے کے لیے صرف ایک ازخود نوٹس کی ضرورت ہے، اس از خود نوٹس پر اورنج لائن ٹرین کو بند کر دیں گے، لوگوں نےہمیں تو ووٹ نہیں دینے۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب سے بہت سے سوالات کیے جاسکتے ہیں، اگر وزیراعلیٰ سندھ کو عدالت بلایا جا سکتا ہے تو وزیراعلیٰ پنجاب کو کیوں نہیں۔
اس دوران ملاوٹ شدہ دودھ کی فروخت کے خلاف از خود نوٹس کیس کی بھی سماعت ہوئی جس دوران عدالت نے ملک بھرمیں دودھ کی پیداوار کے لیے بھینسوں کو ٹیکے لگانے پر پابندی عائد کردی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بچے اور بڑے سب ہی کینسر زدہ دودھ پینے پر مجبور ہیں، پاکستان میں ڈبے کے تمام دودھ جعلی اور مضرِ صحت ہیں، تمام ڈبہ پیک دودھ میں فارمولین کیمیکل موجود ہے، فارمولین کیمیکل انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
غیر قانونی شادی ہالز سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ڈی جی عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ غیرقانونی شادی ہالز کو سیل یا گرایا کیوں نہیں؟ اس پر ڈی جی ایل ڈی اے نے بتایا کہ 186 شادی ہالز کا سروے مکمل کرلیا گیا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے ملک بھر کی عدالتوں کو غیر قانونی شادی ہالز کو حکم امتناعی دینے سے روک دیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے شہر میں سڑکوں کی بندش کا نوٹس لے لیا۔
چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں بھی ایک چھوٹا سا وی وی آئی پی ہوں، غالباً وی آئی پی کی فہرست میں میرا تیسرا نمبر ہے، چیف سیکرٹری صاحب، بتائیں بڑےصاحبان کے لیے رکاوٹیں کیوں کھڑی کی جاتی ہے، آپ کو علم ہونا چاہیےکہ راستے بند کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بتایا جائے، جوڈیشل کالونی میں کون بڑا رہتا ہے؟ جس کے کہنے پر رکاوٹیں لگائی گئی ہیں، میرےگھر کے سامنے سے تو بھٹے والا بھی گزرتا ہے، میں نےتو رکاوٹیں کھڑی نہیں کیں، بڑوں کے گزرنے پر راستے بند ہی کیوں کیے جاتے ہیں؟