19 جنوری ، 2018
ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل سے متاثر ہونے والا ایک اور شخص منظر عام پر آیا ہے جس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے والد سے بلیک میلنگ کے ذریعے 5 لاکھ پاؤنڈ بٹورے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق میلکم نامی شخص کا کہنا ہے کہ اس کے والد بھی جعلی ڈگری اسکینڈل کے متاثرین میں شامل ہیں ۔
میلکم کے مطابق سیسل نے ایک دن رابطہ کیا اور کہا کہ وہ اپنی زندگی کا مشکل ترین سال گزار رہے ہیں اور انہیں کچھ بتانا چاہتے ہیں چاہتے ہیں۔’میرے والد کا کہنا تھا کہ انہیں دل کی کسی بیماری کی تشخیص کی گئی ہے اور وہ جلد برطانیہ واپس آکر تمام تفصیلات سے آگاہ کریں گے مگر اس سے قبل ہی ان کا انتقال ہوگیا۔‘
میلکم کے مطابق اس کے والد سیسل 20 سال تک سعودی عرب میں مقیم رہے اور پیشے سے انجینئر تھے۔
میلکم نے بتایا کہ انہیں اپنے والد کی جانب سے گئی ادائیگیوں کا علم ان کے مالیاتی کاغذات کے ذریعے ہوا ۔
سیسل کے بیٹے کے مطابق ان کے انتقال کے بعد سعودی عرب سے آنے والے ان کے سامان میں کچھ ڈگریاں ملیں جن کو دیکھ کر ہم نے کہا کہ سیسل ان کی کیا ضرورت تھی۔
جعلی ڈگری اسکینڈل سے متعلق بات کرتے ہوئے میلکم نے کہا کہ ’وہ آپ کو کال کرکے بولتے ہیں کہ آپ اس ڈگری کے لیے پوری طرح کوالیفائیڈ ہیں اور آپ کو یہ ڈگری مل سکتی ہے، جب آپ اسے حاصل کرلیتے ہیں تو کوئی اور آپ کو کال کرکے بولے گا کہ آپ کی ڈگری جعلی ہے اور آپ کو مزید پیسے دینے پڑیں گے ورنہ آپ جیل جائیں گے۔‘
میلکم نے خبردار کیا کہ کوئی بھی شخص ان کے والد کی پوزیشن میں ہو تو وہ اس بارے میں دیگر لوگوں سے بات کرے اور فوری طور پر رقم کی ادائیگیاں روک دے۔
دنیا بھر میں جعلی ڈگری کے کاروبار کرنے والی کمپنی ایگزیکٹ کا انکشاف 18 مئی 2015 کو امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے کیا۔
ایگزکٹ کا جعلی ڈگریوں کا اسکینڈل دنیا بھر میں پاکستان کے لیے بدنامی کا باعث بنا کیونکہ ایگزیکٹ جعلی ڈگری، پیسے چھاپنے اور لوگوں کو بلیک میل کرنے کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا چکی تھی۔
کمپنی کا اسکینڈل سامنے آنے پر حکومت، ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی اداروں نے مل کر بھرپور کارروائی کی اور کمپنی کے مالک شعیب شیخ، وقاص عتیق سمیت جعلی ڈگری کا دھندا کرنے والے کئی افراد حراست میں لے لیے گئے۔
عالمی جریدوں اور ٹی وی چینلز نے اس معاملے پر کڑی تنقید کی جبکہ امریکا میں فرنٹ مین پکڑا گیا جسے اعتراف جرم اور بھانڈا پھوڑنے کے بعد سزا ہوئی۔
جعلی ڈگری اسکینڈل کے خلاف پاکستان میں کراچی اور اسلام آباد میں مقدمات درج ہوئے، کارروائیاں تیز کی گئیں مگر پھر کارروائی کی راہ میں چند پراسرار موڑ آئے۔
دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے والا جعلی ڈگری بنانے والی کمپنی کا مالک شعیب شیخ ضمانت پر رہا ہو گیا اور دیگر ملزمان کو بھی ضمانتیں مل گئیں۔
سابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پرویز القادر میمن نے ملزمان کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا تو ایف آئی اے نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔
ملزمان کو بری کرنے والے سابق جج پرویزالقادرمیمن کے خلاف اسی مقدمہ میں رشوت لینے پر انکوائری کا سامنا بھی کرنا پڑا، سابق جج نے دو رکنی کمیٹی کے روبرو رشوت کا اعتراف کیا تاہم بعد میں اس سے انکار کر دیا تھا۔
جمعے کے روز چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل کا از خود نوٹس لے لیا۔
چیف جسٹس نے ایک کیس کی سماعت کے دوران کیس سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے سے 10 روز میں رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بتایا جائے کیس کی کتنی ایف آئی آر درج ہوئیں، اس میں کیا پیشرفت ہوئی اور کیا فیصلے آئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے از خود نوٹس کی کھلی عدالت میں سماعت کرنے کا اعلان کیا ہے۔