پاکستان
Time 26 جنوری ، 2018

قصور میں زیادتی کا شکار بچیوں کے والدین کی دل دہلا دینے والی داستانیں

قصور میں بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا آغاز 2012 میں ہوا، مدیحہ نامی بچی کے ساتھ زیادتی کی گئی جس کے بعد ایمان فاطمہ، نور فاطمہ، عائشہ، لائبہ اور کائنات سمیت درجنوں بچیوں کے ساتھ اس طرح کے واقعات پیش آئے۔

زینب کی طرح دیگر بچیوں کے والدین بھی انصاف کے منتظر ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملزم کو سر عام پھانسی پر لٹکایا جائے تاکہ دیگر بچیوں کے ساتھ اس طرح کے واقعات نہ ہو سکیں۔

جیو نیوز کے پروگرام ’لیکن‘ کی ٹیم نے قصور میں گزشتہ برس زیادتی کا نشانہ بننے والی بچیوں کے والدین سے ان کا مؤقف جاننے کی کوشش کی جس کا مقصد زینب کی طرح انہیں بھی انصاف کی فراہمی ہے۔

عائشہ کے والدین کا مؤقف

عائشہ کے والد آصف نے بتایا کہ ان کی بیٹی 7 جنوری 2017 کو گھر کے دروازے سے لاپتہ ہوئی اور ہم لوگ اپنی بیٹی کو دو روز تک تلاش کرتے رہے لیکن دو روز بعد قریب ہی واقع ایک زیر تعمیر مکان سے اس کی لاش ملی۔

قصور میں زیادتی کا شکار عائشہ کے والدین جیو نیوز کو واقعے کی تفصیلات بتا رہے ہیں۔ فوٹو: اسکرین گریب

اس واقعے کے بعد سے آج تک ہمیں ڈی این اے سمیت کسی ایک بھی چیز کی کاپی نہیں ملی، میڈیا کے ذریعے پتہ چل رہا ہے کہ تمام بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات میں ایک شخص ملوث ہے لیکن اس حوالے سے پولیس یا کسی حکومتی نمائندے نے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری اپیل ہے چیف جسٹس آف پاکستان سے کہ جو بندہ پکڑا گیا ہے اگر یہی ملزم ہے تو اسے سر عام پھانسی دی جائے اور اس کے ٹکڑے کر کے تمام لواحقین کو دیے جائیں جو اپنے اپنے محلے کے چوراہے پر اس کے ٹکڑے جلائیں، اسی وقت ہمیں تھوڑا سکون ملے گا۔

عائشہ کے والد کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں ایک بندہ ملوث نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر اغوا ہونے والی بچی کو اس کے گھر کے پاس ہی پھینک کر گیا۔

عائشہ کی والدہ کا بیان


عائشہ کی والدہ شازیہ آصف نے کہا کہ شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ میڈیا کے سامنے بیٹھ کر تالیاں بجا رہے ہیں، کیا ان کے گھروں میں بہن بیٹیاں نہیں ہیں، اگر یہ ہمیں انصاف نہیں دے سکتے تو اپنی زبانیں ہی بند کر کے بیٹھ جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک سال گزرنے کے باوجود ہمیں آج تک انصاف نہیں مل سکا، جب بھی کوئی اس قسم کا واقعہ پیش آتا تو میرے زخم تازہ ہو جاتے اور زینب کے والد کے ساتھ تالیاں بجا کر انہوں نے میرا ایک ایک زخم تازہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر میرے سامنے یہ لوگ تالیاں بجاتے تو میں مرنے کے مقام پر ہوتی، اگر پولیس نے میری بیٹی کے قتل کے بعد کچھ کیا ہوتا تو میں کہتی کہ انہوں نے کچھ کیا ہے، آج 12 بیٹیوں کے قتل کے بعد کہتے ہیں کہ پولیس کے لیے تالیاں بجاؤ، میں لعنت بھیجتی ہوں اس پولیس پر۔

عائشہ کی والدہ نے مزید کہا کہ زینب کی طرح عائشہ بھی قوم کی بیٹی تھی، وہ کوئی لاوارث بچی نہیں تھی، جب کسی بیٹی کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش آتا ہے تو مجھے بھی بہت دکھ ہوتا ہے، میں تو ان بچیوں کے لیے روتی ہوں کہ ماں باپ کس ناز نخرے سے اپنی بیٹیوں کو پالتے ہیں اور ایک درندہ انہیں اٹھا کر لے جاتا ہے اور پھر ہمارے ہی گھر کے پاس پھینک جاتا ہے۔

شازیہ آصف کا کہنا تھا کہ زینب کے قاتل کی گرفتاری کے بعد بھی میں مطمئن نہیں ہوں، اگر واقعی یہی ملزم ہے تو میں اس کے سامنے بیٹھ کر اس کی آنکھوں میں خوف دیکھنا چاہتی ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں، اسے ہمارے محلے میں لا کر پھانسی دی جائے تاکہ ہمیں بھی پتہ چلے کہ ہمیں انصاف ملا ہے۔

عائشہ کے والد نے کہا کہ جہاں میری پہلی بیٹی عائشہ پڑھتی تھی اسی اسکول میں دوسری بیٹی کو بھی داخل کرایا ہے، ہم ان ظالموں سے ڈرنے والے نہیں ہیں، ہم اپنے بچوں کو پڑھائیں گے۔

شازیہ آصف نے کہا کہ میری چھوٹی بیٹی ڈرتی ہے اور کہتی ہے کہ مما کہیں انکل مجھے بھی تو پکڑ کر نہیں لے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری تو اللہ سے دعا ہے کہ اگر ہم غریبوں کے ساتھ یہ ہو رہا ہے تو ان امیروں کے ساتھ بھی ایسا ہو تاکہ انہیں پتہ چلے کہ بیٹیوں کو کیسے پالا جاتا ہے۔

آصف نے کہا کہ پولیس نے میرے سامنے دو افراد کو پیش کیا اور کہا کہ یہ آپ کی بیٹی کے قاتل ہیں اور جب میں نے ان سے اپنی بیٹی کے حوالے سے سوالات کیے تو وہ کوئی جواب نہیں دے سکے۔

ایمان فاطمہ کے والدین کا مؤقف

ایمان فاطمہ کے ساتھ فروری 2017 میں زیادتی کا واقعہ پیش آیا، میڈیا پر بہت شور مچا، احتجاج ہوا اور پھر پولیس حرکت میں آئی اور ایک شخص کو پکڑا، وہ شخص محمد عمران نہیں بلکہ کوئی اور تھا۔

زیادتی کا نشانہ بننے والی ایمان فاطمہ کے والدین تفصیلات بتاتے ہوئے۔ فوٹو: اسکرین گریب

بعد ازاں پولیس نے ایمان فاطمہ کے ساتھ قتل اور زیادتی میں ملوث ہونے پر مبینہ پولیس مقابلے میں مدثر نامی شخص کو مار ڈالا۔

ایمان کے والد نے بتایا کہ ان کی بیٹی اپنی نانی کے ساتھ گئی اور پھر دو گھنٹے بعد فون آیا کہ ایمان لا پتہ ہو گئی ہے، پولیس اور محلے والوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا اور پھر تقریباً 3 گھنٹے بعد ایمان کی لاش وسیم کالونی میں ایک زیر تعمیر مکان سے ملی۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس حکام مجھے اپنے ساتھ لے کر گئے اور وسیم نامی ملزم کو پیش کیا جس نے اقبال جرم بھی کیا اور مجھ سے معافی مانگی، میں اس وقت وہاں سے چلا گیا لیکن اگلے روز صبح پولیس مجھے ساتھ لے کر گئی اور بتایا کہ مدثر کو پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تو مجھے 100 فیصد یقین تھا کہ مدثر ہی میری بیٹی کا قاتل ہے لیکن زینب کے قاتل کی ڈی این اے رپورٹ میں میری بیٹی کا نام بھی آ رہا ہے، پتہ نہیں حکومت نے اس وقت غلطی کی تھی یا اب غلطی پر ہیں۔

ایمان کے والد نے مزید کہا کہ جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو ہمارا زخم دوبارہ سے تازہ ہو جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ووٹ ہم مسلم لیگ (ن) کو دیتے ہیں لیکن ان لوگوں نے ہمارے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کیا۔

چیف جسٹس اور آرمی چیف سے اپیل

انہوں نے کہا کہ میری چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے اپیل ہے کہ اگر گرفتار شخص ہی مجرم ہے تو اسے قصور لایا جائے اور یہ شخص خود بتائے کہ کس طرح سے اس نے یہ واقعات کیے ہیں۔

ایمان کے والد کا کہنا تھا کہ زینب کی طرح دیگر بچیاں بھی ہماری بیٹیاں تھیں، حکومت کو چاہیے تھا کہ زینب کے والد کی طرح ہمیں بھی اعتماد میں لیتے، اور تالیاں بجاتے وقت انہیں شرم آنی چاہیے تھی کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کل ایک نجی ٹی وی چینل نے ہمیں بلایا اور تالیاں بجوائیں جس پر ہم نے انہیں روک دیا کہ آپ تالیاں بجوا کر ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ڈی این اے رپورٹ پر ابھی تک کوئی اعتبار نہیں ہے اور ان واقعات میں ایک ملزم نہیں بلکہ پورا گینگ ملوث ہے۔

مزید خبریں :